کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 17
[1] ہم پر چار مسائل کا جاننا ضروری ہے: [2]
پہلا مسئلہ معرفت الٰہی: [3]
… معرفت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [4]
[1] [بقیہ حاشیہ] کے لیے آپ کا مطلوب حاصل کرنا آسان ہوجائے اور محذورات سے بچ سکیں ۔ پس اس کا معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سابقہ گناہ معاف فرمائے۔ اور آپ کو توفیق دے اور مستقبل میں آپ کو محفوظ رکھے۔ یہ معنی اس وقت ہوتا ہے جب دعا میں صرف رحمت کو انفرادی طورپر ذکر کیا جائے۔ ہاں ! جب رحمت کے ساتھ مغفرت کی دعابھی کی جائے تو اس صورت میں دعائے مغفرت ماضی کے گناہوں کے لیے ہوگی اور دعائے رحمت مستقبل میں خیر کی توفیق اورگناہوں سے سلامتی اور حفاظت کے لیے ہوگی۔
یہاں پرمؤلف رحمۃ اللہ علیہ کا طریق کار مخاطب کے ساتھ شفقت اور پیارو محبت کے اہتمام اور اس کی بھلائی و خیرخواہی پر دلالت کرتا ہے۔
[2] یہ چار مسائل جن کا ذکرمؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے یہ تمام دین کو شامل ہیں ۔اس لیے ان کو سیکھنے کا اہتمام کرنا ضروری ہوتاکہ ان سے عظیم الشان فوائد حاصل ہوسکیں ۔
[3] یعنی دل سے اللہ تعالیٰ کی معرفت جو کہ اس کی شریعت کو قبول کرنے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کومستلزم ہے۔ اوریہ کہ انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو اپنا حاکم سمجھے۔ اور انسان کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود آیات شرعیہ اور مخلوقات میں موجود آیات کونیہ پر غوروفکر کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے ۔انسان کا غوروفکر جب بھی ان آیات میں بڑھتا ہے تو اپنے خالق و معبود کے متعلق اس کے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ o وَفِیْ اَنفُسِکُمْ اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ [الذاریات:20.21] ’’اور یقین والوں کے لیے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔‘‘
[4] یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم کی ایسی معرفت جس سے انسان آپ کے لائے ہوئے دین حق اور را ہ ہدایت کے قبول اور آپ کی بتائی ہوئی خبروں کی تصدیق اور آپ کے اوامر کی تعمیل اورنواہی و ممانعت سے اجتناب کو اور آپ کی شریعت کو اپنا حاکم سمجھنے اور آپ کے حکم پررضامندی کو اپنے آپ پر لازم سمجھنے لگے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء:65 ) ’’سو قسم ہے آپ کے پروردگار کی!یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔‘‘[حاشیہ جاری ہے]