کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 167
مضبوط کڑے (سہارے)کو تھام لیا[1] جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا اور اﷲتعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اور یہی معنی ومفہوم (( لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ )) کا ہے کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( رَأْسَ الْاَمْرِ الْاِسْلَامُ[2]وَعَمُوْدہ الصَّلوٰۃُ[3] وَذِرْوَۃُ سَنَامِہِ الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ)) [4]’’تمام امور کی اصل اسلام ہے ‘اس کا ستون نماز ہے اور اس کی کوہان کی چوٹی (اعلیٰ ترین عمل )اﷲکی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔‘‘
واللّٰہ أعلم[5]وصلی اللّٰہ علی محمد وعلی آلہ وصحبِہِ وسلَّم۔
[1] یعنی اس کو کامل طورپر گرفت میں لے لیا۔یہ اسلام کی پائیداری کڑی ہے۔ غور کیجیے :اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:﴿فقد استمسک﴾ یقینا اس نے مضبوطی سے پکڑ لیا۔یہ نہیں فرمایا کہ (تمسک) اس نے اس پکڑ لیا۔ اس لیے کہ پہلا معنی دوسرے معنی کی نسبت زیادہ قوی ہے۔
[2] مؤلف رحمۃ اللہ علیہ چاہتے ہیں کہ اس حدیث سے اس بات پر استدلال کریں کہ ہر چیز کا ایک سرا اور کونہ ہوتا ہے۔چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو احکام لے کر آئے ہیں ان کا سرا اسلام ہے۔
[3] کیونکہ نماز کے حکم کے بغیر یہ دین قائم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے راجح حکم یہی ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے۔اس کا اسلام معتبر نہیں ۔
[4] اس حکم کی بلند ترین اورکامل ترین چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ہے۔ کیونکہ انسان جب اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو غیر کی اصلاح کی کوشش جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ کرتا ہے تاکہ اسلام قائم ہواور اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند ہو۔ پس جو کوئی اس غرض سے قتال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند رہے تواس کا یہ جہاد اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے۔ اوروہ کوہان کی بلندی کی طرح ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعہ دین اسلام کو دوسرے ادیان پر بلندی حاصل ہوتی ہے۔
[5] شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا یہ رسالہ علم کواللہ تعالیٰ کی طرف لوٹاتے ہوئے اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے ساتھ ختم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اصول ثلاثہ اور اس کے حواشی ختم ہوئے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مؤلف کو بہترین ثواب عطا فرمائے اور ہمیں بھی اس کے اجر و ثواب میں برابر کا شریک فرمائے اور ہمیں اپنے دار کرامت میں جمع کردے۔ بے شک وہ بڑا ہی مہربان اور کریم ہے۔