کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 166
[1]اس کی دلیل [2]اﷲتعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّ یْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ فَمَن یَّکْفُرْ بِالطَّـاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیٰ لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ :256) ’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں [3]ہدایت، گمراہی سے واضح ہوچکی ہے۔ اس لیے جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اﷲپر ایمان لے آئے[4]اس نے
[1] [بقیہ حاشیہ] بلکہ وہ خالص پہلی قسم سے ہیں ۔ اس لیے کہ قانون ساز جس نے اسلام مخالف قانون بنایا ہے ‘ اس اعتقاد کے تحت بنایا ہے کہ وہ بندوں کے حق میں اسلام سے زیادہ اصلاح کرے گااور اس سے زیادہ فائدہ پہنچے گا جیسا کہ اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ یہ مسئلہ یعنی اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کامسئلہ ایک ایسا عظیم مسئلہ ہے جس کے ذریعہ آج کے حکمران آزمائش میں مبتلا ہیں ۔ لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ وہ ان کے پاس کسی ایسے معاملہ کا مقدمہ پیش کرنے میں جلد بازی نہ کرے جس کا انہیں حق نہ ہو۔ یہاں تک کہ واضح ہوجائے کہ حق کیا ہے ؟ کیونکہ یہ مسئلہ بہت ہی خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمان حکمرانوں کو اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ ایسے ہی جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا ہو ‘ اس کی ذمہ داری ہے کہ ایسے حکام سے یہ مسئلہ بیان کردے‘ تاکہ ان پر حجت قائم ہوجائے‘ اور صحیح راستہ واضح ہوجائے۔ پھر جسے ہلاک ہونا وہ دلیل سمجھ کر ہلاک ہو‘ اور جو زندہ رہنا چاہے وہ بھی دلیل کی روشنی میں زندہ رہے۔ اور اس کے بیان کے سلسلہ میں اپنے آپ کو ہر گزحقیر نہ سمجھے اور نہ ہی کسی سے ڈرے عزت تو اللہ ‘اور اس کے رسول اور اہل ایمان کے لیے ہے ۔ [2] یعنی قانون الٰہی کے مطابق فیصلہ کرنے اور طاغوت کے انکار کے واجب ہونے کی دلیل ۔ [3] دین کے دلائل واضح اور روشن ہوجانے کے بعد دین پر کوئی زبردستی نہیں ۔اسی لیے بعد میں فرمایا: ﴿قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ﴾: ہدایت اور ضلالت سے روشن ہو چکی ہے۔ جب ہدایت اور گمراہی دونوں ہی واضح اور الگ الگ ہوچکی ہیں تو ہر شخص چھان بین اور تحقیق کرنے کی زحمت سے بچ گیا ہے، لہٰذا ضروری ہوگیا ہے کہ وہ گمراہی کو چھوڑ کر ہدایت اختیار کرے ۔ [4] اللہ تعالیٰ نے ایمان باللہ سے پہلے کفر بالطاغوت کو بیان فرمایا۔کیونکہ کسی چیز کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کو ثابت کرنے سے قبل اس کے وجود میں حائل رکاوٹیں ہٹا دی جائیں ۔اسی لیے کہا جاتا ہے التخلی قبل التحلی یعنی’’ صفائی آرائش سے پہلے۔‘‘