کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 165
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] لہٰذا کافر ظالم اور فاسق ہے۔یا پھر یہ اوصاف االلہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق فیصلہ نہ کرنے پر ابھارنے والے جذبہ کے لحاظ سے دو موصوف کے ہوں ۔میرے نزدیک یہی زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم ہم کہتے ہیں : جو شخص قوانین الٰہی کو بے قدر یا حقیر سمجھ کر یا یہ اعتقاد رکھ کر کہ دوسرے قوانین میں مخلوق کے لیے زیاد ہ بھلائی اور اصلاح پائی جاتی ہے یا دوسرے قوانین بھی قوانین الٰہی کی طرح نفع بخش ہیں اور ان کے ذریعے فیصلہ کرتاہے اورقوانین الٰہی کو پس پشت ڈال دیتا ہے وہ کافر اور ملت سے خارج ہے۔ انہی میں وہ لوگ بھی شمار ہوتے ہیں جو ایسے قوانین بناتے ہیں جو شریعت اسلام سے متصادم ہوں ۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کے وضع کردہ قوانین کو اختیار کریں ۔انہوں نے اسلام مخالف یہ قوانین اس اعتقاد کے ساتھ ہی تو بنائے ہیں کہ مخلوق کے لیے زیادہ اصلاح کار اور سود مند ہیں ۔ کیونکہ یہ کھلی ہوئی معقول اور فطری بات ہے کہ انسان ایک راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ یہی سمجھ کر اپناتا ہے کہ یہ دوسرا راستہ پہلے سے افضل ہے۔اور جو قوانین الٰہی کے مطابق فیصلے نہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام کی ناقدری بھی نہیں کرتااور نہ ہی انہیں حقیر سمجھتا ہے ‘اور نہ ہی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ دوسرا قانون مخلوق کے لیے حکم الٰہی سے زیادہ سود مند ‘ یا حکم الٰہی جیسا ہی ہے ۔ بلکہ وہ قوانین الٰہی کے علاوہ کسی متبادل قانون کے مطابق فیصلہ صاحب ِمعاملہ کے خوف یا رشوت وغیرہ دنیاوی فائدے کی وجہ سے کرتا ہے تو وہ کافر نہیں بلکہ صرف فاسق ہے۔ اس کے فسق کے درجات فیصلہ اور وسائل فیصلہ کے پیش نظر مختلف ہوں گے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں کے سلسلے میں جنہوں نے احبار و رہبان کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب بنالیا تھا ‘ فرمایا ہے کہ وہ دو طرح کے لوگ تھے: اول: وہ لوگ جنہیں علم تھا کہ پادریوں اور درویشوں نے اللہ کے دین کو بدل دیا ہے ‘ پھراس کے باوجود وہ ان کی اتباع کرتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ حلال ہوگیا اوریہ حرام ہوگیاہے۔وہ اپنے بڑوں کی اتباع میں ایسا کرتے تھے۔ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ انہوں نے رسولوں کے دین کی مخالفت کی ہے۔ پس یہ کفر ہے ‘ اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے مشرک قراردیا ہے۔ دوسری قسم کے وہ لوگ تھے جن کا اعتقاد و ایمان حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کے سلسلہ میں راست تھا لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ان درویشوں اور مولویوں کی اطاعت کرتے تھے ‘ جیسے کہ مسلمان نافرمانیاں کرتا ہے او راعتقاد رکھتا ہے کہ وہ نافرمانیاں ہیں ایسے لوگ گنہگار ہیں ۔وہ مسائل جو عام تشریع سمجھے جاتے ہیں ‘ اوروہ متعین مسئلہ جس میں قاضی بغیر قانون الٰہی کے فیصلہ کرتا ہے ‘ ان دونوں میں فرق ہے۔ کیونکہ وہ مسائل جو عام تشریع ہیں ‘ ان پر مذکورہ تقسیم لاگو نہیں ہوتی۔ [جاری ہے]