کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 163
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] اَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیْغًا o وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآؤُوْکَ فَاسْتَغْفَرُ وا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا o فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ ( النساء:60 تا 65) ’’ کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں ، شیطان تو یہ چاہتا ہے بہکا کر دور ڈال دے۔ ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رک جاتے ہیں ۔پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو پھریہ آپ کے پاس آکراللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے آپ ان سے چشم پوشی کیجئے، انہیں نصیحت کرتے رہیے اور انہیں وہ بات کہیے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو ۔ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے۔ اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یقینا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ سو قسم ہے آپ کے پروردگار کی!یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور خفگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ان دعویداروں کی جو کہ حقیقت میں منافق ہیں چند صفات بیان کی ہیں : پہلی صفت: وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت سے کروائیں ۔ طاغوتی فیصلہ ہر وہ فیصلہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہو۔ یہی اس ذات الٰہی کے حکم کے ساتھ سرکشی و بغاوت ہے جس کی طرف تمام حکم اور معاملات لوٹانے چاہیں ۔اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿ اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الاعراف:54) ’’ یاد رکھو! اسی نے پیدا کیا ہے تو حکم بھی اسی کاچلے گا ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ تعالیٰ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘ دوسری صفت یہ کہ : جب ان پر ان کے کرتوتوں کے سبب سے مصیبت آن پڑتی ہے تو [جاری ہے]