کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 160
[1]اور طاغوت[2] بہت زیادہ ہیں اوران کے بڑے سر غنہ پانچ[3] ہیں :
1. ابلیس ملعون۔[4]
2. اور وہ شخص جو اپنی عبادت کرو اکر خوش ہوتا ہے۔[5]
3. جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ [6]
[1] [بقیہ حاشیہ ]: خوف سلطانی قوی ہوگا تو ظاہر میں امت کے لیے بھلائی کا سبب ہوگا۔ اگرحکومت کا خوف بھی نہ رہ جائے تو پھر امت کی بد حالی اور بدعملی ناقابل بیان حالت کو پہنچ جائے گی۔
چہارم : جذبۂ ایمانی قوی ہو‘ خوف ِ سلطانی کمزور ہو: تو امت کا ظاہری حال تیسری حالت سے دگرگوں ہو گا ۔ لیکن انسان اور اس کے رب کے مابین حالات اچھے اور کامل ہوں گے۔
[2] طاغوت : سرکش اورحد سے تجاوزکرنے والے کو کہتے ہیں ۔ اس کی تفسیر گزر چکی ہے۔
[3] یعنی ان کے قائدین اور نمونہ ساز شخصیات پانچ ہیں ۔
[4] ابلیس وہ شیطان ہے جو راندہ ٔ درگاہ ہوا‘اوراس پر لعنت کی گئی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:﴿وَاِِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِی اِِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ (ص:78)
’’اور بے شک تجھ پر جزا کے دن تک میری لعنت ہے ۔‘‘
ابلیس فرشتوں کے ساتھ ان کی صحبت میں رہ کر انہی کی طرح عمل کرتا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو اس کے اندر کی خباثت اور غرور ظاہر ہوگیا‘ چنانچہ اس نے تکبرکرتے ہوئے انکار کردیا ‘اور کافر بن گیا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا ۔فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ: 34) ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہاکہ: آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا اس نے انکار اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔‘‘
[5] یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جارہی ہو وہ اس بات کو پسند کرتا ہو کہ اللہ کو چھوڑ کر اسے پوجا جائے۔ایسا شخص بھی ۔ نعوذ باللہ من ذلک- ایک بڑا طاغوت ہے۔چاہے وہ اپنی زندگی میں پوجا جارہا ہو یا موت کے بعد۔ اور جب وہ مرا تو اس بات سے راضی تھا۔[جیسے اکثر سجادہ نشین لوگ]۔
[6] یعنی وہ جو دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہو اگرچہ لوگ اس کی عبادت نہ بھی کرتے ہوں ۔ تو اس کا شمار بھی طاغوت کے ان سر غنہ افراد میں ہوگا۔ چاہے اس کی دعوت کو قبولیت ملی ہو یا نہ ملی ہو۔