کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 159
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] نکل جائیں اور حکام کے لیے اس طرح کے نظاموں سے شریعت اسلام سے باہر ہوجانے کا جواز فراہم کرنے لگیں تو وہ طاغوت ہیں ۔ اس لیے کہ دین اسلام اور اتباع شریعت کی جس حد میں انہیں رہنا واجب تھاوہ اس سے آگے نکل گئے ۔
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے: ’’ یا جس کی اطاعت کی جارہی ہو‘‘تو اس سے وہ ایسے حکام مراد لیتے ہیں جن کی شرعی طور پر یا حیثیت و مرتبہ کے لحاظ سے اطاعت کی جاتی ہے۔حکام کی شرعی طور پر اطاعت اسی صورت میں کی جائے گی جب کہ وہ ایسے امور کا حکم دیتے ہوں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف نہ ہوں ۔ ایسی صورت میں ان کو طاغوت کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ بلکہ رعایا پر ان کی سمع و اطاعت واجب ہوگی۔ اور حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی ہی اطاعت ہوگی۔ اس لیے مناسب ہے کہ جب ہم حکام اور والی کی طرف سے اپنے اوپر کسی حکم کا نفاذ کریں تو یہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔ ایسا خیال رکھنے سے یہ ہوگا کہ اس حکم کے لیے ہماری پابندی اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ بن جائے گی۔یہ خیال اس لیے رکھنا چاہیے کہ ارشاد ربانی ہے:
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء:59)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ۔‘‘
حیثیت کے اعتبار سے اطاعت یہ ہے کہ اگر حکام اور امراء اپنی حکومت میں طاقت ور ہوں تو لوگ ایمانی جذبہ کے تحت نہیں ‘ بلکہ حکومت کی قوت کی وجہ سے ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔ کیونکہ اطاعت ِحکام ایمانی جذبہ کے تحت بھی ہوتی ہے اورقوتِ حکومت کی وجہ سے بھی۔ ایمانی جذبہ کے تحت ہو تو یہی اطاعت کار آمد ہے حکام کے لیے بھی اور عوام کے لیے بھی۔ اورجو اطاعت حکومت کی طاقت کے خوف سے ہو ‘ تو بلاشبہ لوگ اس سے ڈرتے ہیں کہ حکومت اپنی مخالفت کرنے والوں کو سزائیں دیتی ہے۔ ہم اسی لیے کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حکام کے ساتھ لوگوں کے کئی حالات ہوتے ہیں :
اول: یہ کہ ایمانی جذبہ اور حکومت کا خوف دونوں قوی ہوں ‘یہ سب سے مکمل اور عمدہ حالت ہے۔
دوم: یہ جذبہ ایمانی اور خوفِ حکومت دونوں ضعیف ہوں ۔معاشرہ کے لیے یہ سب سے بد تر اور خطرناک حالت ہے‘ حکام کے لیے بھی اور رعایا کے لیے بھی۔ کیونکہ جب جذبہ ایمانی اور خوف سلطانی دونوں کمزور ہوں گے تو فکری اخلاقی اورعملی بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔
سوم: جذبہ ایمانی کمزور ہو اور حکومت کا خوف قوی ہو: یہ درمیانی درجہ ہے۔ کیونکہ جب [جاری ہے]