کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 158
انبیاء و مرسلین علیہم السلام لوگوں کو ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے تھے اور طاغوت کی عبادت سے منع کیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّـاغُـوْتَ﴾ (النحل:36) ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو)صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں اوراللہ تعالیٰپر ایمان لائیں ۔ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’طاغوت‘‘کامعنی ہے کہ بندہ اپنی حد سے تجاوز کرجائے خواہ وہ معبود کے روپ میں ہو یا متبوع ومطاع کے روپ میں ۔‘‘[2]
[1] یہ ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ ‘‘ کا مفہوم ہے۔ [2] شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت اور طاغوت سے اجتناب کے بغیر توحید مکمل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ لغت میں طاغوت طغیان سے مشتق ہے جس کا معنی ہے حد سے گذرنا جیسا کہ قرآن میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے :﴿اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآئُ حَمَلْناٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ﴾ (الحاقہ:11)’’جب پانی حد سے گذر گیا تو ہم نے تمہیں چلتی کشتی میں سوار کرایا۔‘‘ طاغوت کی بہترین اصطلاحی تعریف وہی ہے جو ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’طاغوت‘‘کامعنی ہے کہ بندہ اپنی حد سے تجاوز کرجائے خواہ وہ معبود کی شکل میں ہو یا متبوع ومطاع کی شکل میں ۔‘‘مطاع و معبود اور متبوع سے ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی مراد ناکارہ اورغیر صالح لوگ ہیں ۔ ورنہ صالح لوگ ہر گز طاغوت نہیں ہوسکتے چاہے ان کی پوجا کی جارہی ہو یا ان کی اتباع و اطاعت کی جارہی ہو۔ لہٰذا وہ بت جواللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجے جارہے ہیں ‘ وہ طاغوت ہیں ۔ علمائے سوء جو اس کفرو گمراہی کی طرف لوگوں کو بلارہے ہیں ‘ یا بدعت یا حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کی دعوت دے رہے ہوں ‘ طاغوت ہیں ۔ اوروہ لوگ بھی جو اپنے در آمد شدہ اسلام مخالف نظام کے ذریعہ حاکموں کے لیے شریعت اسلامی سے باہر ہوجانے کا جواز فراہم کرتے ہوں وہ طاغوت ہیں ۔کیونکہ یہ تمام لوگ اپنی حد سے آگے نکل گئے ہیں ۔ ایک عالم کی حد یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کا سچا تابعدار ہو۔ اس لیے کہ علماء ہی حقیقتاً انبیاء کرام علیہم السلام کی وراثت پاتے ہیں ۔ اگروہ اس حد سے آگے [جاری ہے]