کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 155
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]کر نہیں آ گے. سواللہ تعالیٰ بہت ہی عالیشان ہے جو حقیقی بادشاہ ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں عرش عظیم کا مالک ہے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی﴾ (طہ: 15)
’’بے شک قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ مل جائے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِہِمْ لَا یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ بَلٰی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o لِیُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّہُمْکَانُوْا کٰذِبِیْنَ o اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ﴾ (النحل:38تا 40)
’’اور اللہ تعالیٰ کی سخت قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اٹھائیگا اس شخص کو جو مر جائے گا ہاں اس نے اپنے ذمہ پکا وعدہ کر لیا ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے. تاکہ ان پر ظاہر کر دے وہ بات جس میں یہ جھگڑتے ہیں اور تاکہ کافر معلوم کر لیں کہ وہ جھوٹے تھے(رہا اس کا امکان تو)ہمیں کسی چیز کو وجود میں لانے کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا نہیں ہوتا کہ اسے حکم دیں ہو جائو اور بس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ﴾ (التغابن:7)
’’ کافروں نے سمجھ لیا کہ قبروں سے اٹھائے نہ جائیں گے کہہ دوکیوں نہیں آپ کواپنے رب کی قسم ہے ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر تمہیں بتلایا جائے گا جو کچھ تم نے کیا تھا اور یہ بات اللہ تعالیٰ پر آسان ہے۔‘‘
اگر منکرین بعث سے یہ دلائل بیان کیے جائیں اور پھر بھی وہ اپنے انکار پر مصر رہیں تو وہ متکبر اور سرکش ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ﴾ (الشعراء: 227)
’’اور عنقریب وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، جان لیں گے کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔‘‘