کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 154
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] زندہ کرنے اور انہیں اُٹھانے پر بھی قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (فصلت:39)’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آپ زمین کو دبی ہوئی دیکھتے ہیں ، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو ابھرتی ہے اور پھولتی ہے بے شک جس نے اسے زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرے گا بے شک وہی ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ سوم:… اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے کے جو واقعات بیان فرمائے ہیں ‘ ان کے پیش نظر تجربہ اور واقع دوسری زندگی کے امکان کی گواہی دیتے ہیں ۔سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے پانچ واقعات ذکر کیے ہیں ۔ ایک واقعہ یہ ہے : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ:259) ’’کیاآپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک ایسے شہر پر گزرا جواپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا، کہا اسے اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا؟۔ پھراللہ تعالیٰ نے اسے سو برس تک مار ڈالا۔ پھر اسے اٹھایا اور کہا :تو یہاں کتنی دیر رہا؟۔ کہا :ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا۔ فرمایا :بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ بنایاہے اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑدیتے ہیں ، پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں ، پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘ چہارم : حکمت موت کے بعد دوبارہ زندگی کا تقاضا کرتی ہے تاکہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جا سکے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کو پیدا کرنا بے کار ہوتا‘ اس کی کوئی قیمت نہ ہوتی اور نہ ہی کوئی حکمت بلکہ اس زندگی میں انسان اور چوپائے میں کوئی فرق نہ رہ جاتا ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ o فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ﴾ [المؤمنون:115، 116) ’’ سو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں نکما پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہمارے پاس لوٹ [ جاری ہے]