کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 152
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] الدِّیْنِ o وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖ اِِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍo اِِذَا تُتْلَی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ oکَلَّا بَلْسکتۃ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ oکَلَّا اِِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ o ثُمَّ اِِنَّہُمْ لَصَالُوا الْجَحِیْمِ o ثُمَّ یُقَالُ ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ﴾ [المطففین:10 تا 17 ] ’’اس دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی ہے. وہ جو انصاف کے دن کو جھٹلاتے ہیں . اور اس کو وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے بڑھا ہوا گناہ گار ہے۔ جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ہر گز نہیں بلکہ ان کے(بُرے)کاموں سے ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے.ہر گز نہیں بے شک وہ اپنے رب سے اس دن روک دیئے جائیں گے۔ پھر بیشک وہ دوزخ میں گرنے والے ہیں . پھر کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جسے تم جھٹلاتے تھے۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِالسَّاعَۃِ وَاَعْتَدْنَا لِمَنْ کَذَّبَ بِالسَّاعَۃِ سَعِیْرًا﴾ (الفرقان:11) ’’بلکہ انہوں نے تو قیامت کو جھوٹ سمجھ لیا ہے اور ہم نے اس کے لیے آگ تیار کی ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے‘‘۔ اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ لِقَآئِہٖٓ اُولٰٓئِکَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ ( العنکبوت:23 ) ’’اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں ۔ اور انہی کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اس فرمان الٰہی :﴿ زَعَمَ الَّذِ یْنَ کَفَرُوٓا﴾ ’’کافروں نے سمجھ لیا ہے کہ‘‘سے استدلال کیا ہے کہ منکرین معاد کو مندرجہ ذیل دلائل سے مطمئن کیا جانا چاہیے: اول: اخروی زندگی کا معاملہ تمام آسمانی کتب اورشرائع انبیاء و مرسلین میں تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں اس مسئلہ کو قبولیت عام حاصل تھی۔ تم لوگ اس مسئلہ کا انکار کیسے کرتے ہو جبکہ کسی فلسفی یا صاحب ِ دستور یا صاحب فکر کی طرف سے منقول ہر بات تسلیم کرلیتے ہو حالانکہ وہ وسائل نقل یا شہادت واقعہ کے اعتبار سے اس مرتبہ کو نہیں پہنچ پاتی جس مرتبہ کو دوبارہ زندگی سے متعلق خبر پہنچی ہوئی ہے۔ دوم : عقلی اعتبار سے دوبارہ زندگی کے امکان کی شہادت کئی طرق سے ملتی ہے: أ:… کوئی بھی اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ اسے عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کے وجود میں آنے سے پہلے وہ کچھ بھی نہیں تھا۔لہٰذا وہ ذات جس نے اسے نہ ہونے کے بعد پیدا کیا ،[ جاری ہے]