کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 15
اصول دین
بِسْمِ[1]اللّٰہِ[2]
’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں ۔‘‘
[1] مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب اللہ کی اقتدا کرتے ہوئے اپنی کتاب کی ابتدا بسم اللہ سے کی ہے۔اس لیے کہ کتاب اللہ کی ابتدا بھی بسم اللہ سے ہوتی ہے۔ اور اس میں اس حدیث نبوی کی بھی اتباع ہے جس میں ہے : ’’ہر وہ بڑا کام جواللہ تعالیٰ کے نام سے نہ شروع کیا جائے وہ برکت سے خالی ہوتا ہے۔‘‘
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدابھی ہےا س لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تحریروں کا آغاز بسم اللہ سے کیا کرتے تھے۔ یہاں پر مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے لکھنا یا تصنیف کرنا شروع کرتا ہوں ۔ یہاں پر جار و مجروراس مقام کے مناسب فعل محذوف مؤخر سے متعلق ہے۔اس کی تقدیر ہے: بسم اللّٰہ أکتب۔ ہم نے اسے فعل اس لیے مقدر مانا ہے کہ اعمال میں اصل فعل ہوتا ہے۔
اور دو فوائد کی وجہ سے اسے مؤخر مانا ہے:
پہلا فائدہ:… تبرک کے لیے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کیا جائے۔
دوسرا فائدہ:… حصر اس لیے کہ جب فعل کا متعلق مقدم ہو تو حصر کا فائدہ دیتا ہے۔
اور ہم نے اسے مناسب اس لیے کہا ہے کہ:یہ مراد ومقصود پر زیادہ واضح دلالت کرتا ہے۔ پس مثال کے طور پر اگر ہم نے کتاب پڑھنے کے شروع میں یہ کہا ہوتا:’’میں اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں ‘‘تو اس میں ایک ابہام سا باقی رہتا کہ کون سی چیز شروع کی جارہی ہے مگر جب کہہ دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نام سے پڑھنا شروع کرتا ہوں تو اس سے یہ ابہام ختم ہوگیا۔
[2] لفظ اللہ خالق کائنات کا اسم ذات ہے۔ اورباقی تمام اسماء حسنیٰ اس کے تابع ہیں ، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ o اللّٰہُ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ وَیْلٌ لِّلْکٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِ﴾۔[ابراہیم]۔ (اے پیغمبر!یہ قرآن ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے(کفر کی)تاریکیوں سے[حاشیہ جاری ہے ]