کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 149
[1]مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی دلیل: [2] اﷲتعالیٰ نے فرمایاہے: ﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَیٰ ﴾ (طـہ:55) ’’ہم نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ‘[3]اوراسی میں لوٹائیں گے[4] اور ہم تمہیں دوبارہ اسی میں سے نکالیں گے۔‘‘[5] نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ وَاللّٰہُ أَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا o ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْہَا وَ یُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا﴾ (نوح: 18) ’’اور اﷲنے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے جیسے پیدا کرنے کا حق تھا۔پھر اسی میں
[1] [بقیہ حاشیہ ]:قیامت کے روز جھگڑیں گے اور ان کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے خلاف کفار کے لیے ہر گز کوئی راہ پیدا نہیں کرے گا۔ [2] مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملہ میں بیان کیا ہے کہ جب لوگ مرجائیں گے تو وہ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ جزا کے لیے انہیں موت کے بعد زندہ کرکے اٹھائے گا۔اور رسولوں کو مبعوث کرنے کا یہی فائدہ ہے کہ انسان اس روز محشر کے لیے عمل کرکے تیاری کرلے ۔ وہ ایسا دن ہوگا جس کے حالات بہت سخت ہوں گے اور جس کی ہولناکیاں انتہائی خوفناک ہوں گی۔ایسا منظر ہوگا کہ جس کا سن کر دل اللہ تعالیٰ کی طرف پناہ ڈھونڈنے لگتا ہے ‘اور اس دن کا خوف طاری ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیبًاo السَّمَآئُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ کَانَ وَعْدُہُ مَفْعُولًا﴾ (المزمل:17 ، 18 ) ’’پھر تم کیسے بچو گے اگر تم نے کفر کیا، اس دن سے جو بچوں کو بوڑھے کر دے گا۔اس میں آسمان پھٹ جانے والا ہے، اس کا وعدہ ہمیشہ سے (پورا) ہو کر رہنے والا ہے۔‘‘ اس جملہ میں دوبارہ اٹھائے جانے پرایمان کی طرف اشارہ ہے۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر ان دو آیات سے استدلال کیاہے۔ [3] یعنی ہم نے تم کو زمین سے اس وقت پیدا کیا تھا جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ [4] یعنی موت کے بعد دفن کی صورت میں ۔ [5] قیامت کے روز دوبارہ زندہ کرکے۔