کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 148
[1]﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ:3)
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی دلیل فرمان الٰہی ہے:
﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ ، ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ﴾ (الزمر:30، 31 )
’’بلاشبہ آپ کو بھی مرنا ہے اور تحقیق وہ بھی مرنے والے ہیں پھر یقینا تم سب قیامت کے دن اپنے جھگڑوں کو اﷲ تعالیٰ کے سامنے پیش کروگے۔‘‘[2]
[1] [بقیہ حاشیہ]کرکے یا پھر کسی سوال کا جواب دے کر۔ آپ کی بیان کردہ سب سے عظیم چیز توحید ہے۔
آپ نے اس امت کو جو بھی حکم دیا ‘ اس میں ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے‘ اور جس بھی چیز سے آپ نے روکا اور منع کیا ‘ اس میں دنیا و آخرت میں امت کے لیے شروبرائی ہے۔ بعض لوگ جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ امر و نہی میں تنگی ہے توان کا یہ دعویٰ بصیرت میں خلل ‘ ایمان میں کمی اور دین کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔ ورنہ عام قاعدہ ہے کہ دین کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی تنگی نہیں رکھی۔ بلکہ سارا دین آسانی اور سہولت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ﴾ (البقرۃ:185)
’’ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ (الحج :78)
’’ اور اللہ تعالیٰ نے تم پر دین میں کوئی تنگی پیدا نہیں کی ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ﴾ (المائدۃ:6)
’’ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے ۔‘‘
پس اس اتمام نعمت اور اکمال دین پر ہر قسم کی تعریف صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے ۔
[2] اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جن لوگوں کی طرف آپ کو مبعوث کیا گیا تھا ‘ سب کے سب موت سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ اور یہ کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں [جاری ہے]