کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 144
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قیام فرمایا تو شریعت کے باقی احکام شریعت صادر ہوئے۔جیسے زکوٰۃ ‘روزہ ‘حج ‘اذان ‘جہاد‘نیکی کا حکم دینا‘برائی سے روکنا اور اس کے علاوہ دیگرشرعی احکام۔[1]
[1] مؤلف رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے ہیں کہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں آزادی حاصل ہوگئی تو آپ نے اسلام کے باقی امور شریعت کاحکم دیا۔آپ نے مکہ میں تیرہ سال تک توحید کی دعوت دی تھی۔اس کے بعد مکہ ہی میں آپ پر پانچ نمازیں فرض کردی گئی تھیں ۔پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو اس وقت تک آپ پر زکوٰۃ فرض نہ ہوئی تھی نہ ہی روزہ اور حج اور دوسرے شعائر اسلام کی فرضیت آئی تھی۔مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی اور تفصیلی طور پر زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی تھی۔ بعض علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کا مسلک ہے کہ زکوٰۃ اولاً مکہ میں ہی فرض ہوگئی تھی لیکن اس کا نصاب اور واجب مقدار مقرر نہیں تھی۔مدینہ میں نصاب مقرر ہوا اور مقدار متعین کی گئی۔
ان علماء کا استدلال یہ ہے کہ وہ آیات جن میں زکوٰۃ واجب کی گئی ہے مکی سورتوں میں ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿ وَ اٰتُوْاحَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ﴾ (الانعام:141)
’’ اور کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ﴾ (المعارج :24،25) ’’اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے۔سوال کرنے والے کے لیے اور (اس کے لیے) جسے نہیں دیا جاتا۔‘‘
بہر حال زکوٰۃ کا مستقل حکم ‘نصاب کا تعین ‘ واجب مقدار اور مستحقین کا بیان مدینہ میں ہواہے۔ ایسے ہی اذان اور نماز جمعہ بھی ۔ اور بظاہر جماعت بھی مدینہ میں ہی فرض ہوئی کیونکہ وہ اذان جس میں جماعت کے لیے بلایا جاتا ہے ۲ھ میں فرض کی گئی تھی۔زکوٰۃ اور روزہ بھی ۲ھ میں فرض ہوئے تھے۔ لیکن حج علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کے راجح قول کے مطابق ۹ھ میں فرض ہوا تھاجبکہ مکہ مکرمہ ۸ھ میں فتح ہونے کے بعد اسلامی شہر بن چکا تھا۔
اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ تمام ظاہری شعائر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں استقلال و استقرار اوراسلامی حکومت قائم ہوجانے کے بعد فرض ہوئے تھے۔