کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 143
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]نہیں ہوگی۔ کیونکہ بلادِ کفر میں اقامت دین و اخلاق کو خطرہ اور بلاوجہ کثیر دولت کا زیاں ہے۔
چھٹی نوعیت : یہ ہے کہ سکونت اختیار کرنے کے لیے قیام ہو۔یہ سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ کافروں کے ساتھ مکمل میل و جول سے بڑے بڑے مفاسد جنم لیں گے۔اس کے شعور میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ وہ بھی اہل وطن میں سے ہے۔ اس لیے لازماً اس کی طرف سے ایسے کاموں کا صدور ہوگا جن کا وطن پرستی تقاضا کرتی ہے جیسے میل جول ‘دوستی اور جماعت کافرین میں اضافہ ۔ اس کے اہل و عیال کافروں کے درمیان رہ کر تربیت حاصل کریں گے اور ان کی عادات و اخلاق کو اپنا لیں گے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ عقیدہ اور عبادت میں بھی ان کا طرز اپنالیں ۔ اسی لیے حدیث نبوی میں ہے: ’’ جو مشرک کے ساتھ بودو باش رکھتا ہے وہ انہی جیسا ہے ۔‘‘ [رواہ ابو داؤد: 6787 وصححہ الالبانی]
یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن ایک نظریہ فراہم کرتی ہے کہ بود و باش ‘ گھل مل جانے کی اپیل کرتے ہیں ۔حضرت قیس بن ابی حازم جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں ہر اس مسلمان سے بری ذمہ ہوں ‘ جو کہ مشرکین کے درمیان رہتا سہتا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: یارسول اللہ!وہ کیوں ؟ فرمایا: ’’ دونوں کی آگ نہیں دکھائی دینی چاہیے۔‘‘
[ رواہ أبو داؤد:2645 و صححہ الألبانی فی صحیح أبی داؤد]
اس حدیث کواکثر راویوں نے قیس بن ابی حازم کی سند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاًروایت کیا ہے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ میں نے محمد بن اسماعیل یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سنا وہ فرماتے تھے: صحیح بات یہ ہے کہ قیس بن ابی حازم کی حدیث مرسل ہے۔
کسی مؤمن کی طبیعت کیسے گوارہ کرے گی کہ وہ کافر ملک میں سکونت اختیار کرے جہاں کفر کے شعائر اعلانیہ ادا کیے جاتے ہوں ۔غیراللہ اور غیر رسول کا حکم چلتاہو۔وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور اپنے کانوں سے سنتا ہو اورپھر اس پر راضی رہے؟ یا اس ملک کی طرف منسوب ہو یا اپنے اہل و عیال کے ساتھ وہاں سکونت پذیر ہو یا وہاں اپنے اہل و عیال کے دین و اخلاق کے لیے زبردست خطرے کے باوجود ایسا ہی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہو‘ جیسا کہ وہ کسی مسلم ملک میں محسوس کرسکتا ہے۔
جہاں تک ہماری رسائی ہوسکی ہے ہم نے کافر ملکوں میں اقامت کاحکم بیان کردیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حق و صواب کے موافق ہو۔