کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 141
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] تیسری شکل: یہ ہے کہ : مسلم حکومت کی کسی ضرورت کے تحت اور کافر ملک کے ساتھ تعلقات کو منظم کرنے کی غرض سے اقامت اختیار کی جائے جیسا کہ سفارت کے اہل کار۔ تو اس کا حکم اقامت کی غرض کے تابع ہے۔ مثلاً : تعلیمی و ثقافتی ادارہ جن کی غرض طلبہ کے امور کی دیکھ بھال اور نگرانی ہوتی ہے۔ انہیں اسلام اور اسلامی اخلاق و آداب کا پابند رکھا جائے۔تو ایسی اقامت سے بڑی مصلحت حاصل ہوتی ہے اور شر و فساد کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
چوتھی شکل: اقامت برائے تجارت یا علاج : یا دیگر کسی خاص اور جائز ضرورت کے تحت ہو ۔ تو ضرورت کے مطابق اس کا قیام وہاں پردرست ہے۔ علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بغرض تجارت کافر ممالک کے سفر کا ثبوت پیش کیا ہے۔
پانچویں شکل:بغرض تعلیم : ایسا قیام بھی سابقہ قیام کی ہی ایک قسم ہے، لیکن یہ قسم زیادہ خطرناک اور قیام کرنے والے کے دین و اخلاق کے لیے تباہ کن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالب علم شعوری طوراپنے رتبہ کی پستی اور استاد کے مرتبہ کی بلندی کا احساس رکھتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اساتذہ کی تعظیم ‘ ان کے افکار و خیالات ‘اور ان کے کردار سے متأثر ہونے لگتا ہے اور پھر انہی کا راستہ اپنا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جس کو بچالے وہی اس گمراہی سے بچ سکتا ہے۔ لیکن ایسے طالب علموں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ طالب علم کو اس بات کا احساس رہتا ہے کہ اسے اپنے استاذ کی ضرورت ہے۔ اوریہ احساس استاذ کی محبت تک ہی نہیں بلکہ استاذ کے انحراف اور گمراہی کے سلسلہ میں مداہنت اختیار کرلینے تک پہنچادیتا ہے۔ درس گاہ میں اس طالب علم کے ساتھی حضرات بھی ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سے اس کی دوستی ہوجاتی ہے اور پیار و محبت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے اور ان سے فائدہ بھی پہنچنے لگتا ہے۔
سابقہ اقسام و اشکال کی نسبت اس میں چونکہ خطرات زیادہ ہیں ‘ اس لیے احتیاط کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ دو بنیادی شرائط کے ساتھ مزید کچھ شرائط عائد کی جاتی ہیں:
شرط اول : طالب علم میں عقل و شعور کی اتنی پختگی ہو کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھتا ہو۔ اوردور تک کی سوچ رکھتا ہو۔ نوعمر اور کوتاہ اندیش کو ایسے ممالک میں بھیجنا ان کے دین و اخلاق اور کردار کے لیے خطرناک ہے۔پھر ایسے انسان خود لوگوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں ۔اس لیے کہ [جاری ہے ]