کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 140
[1] ……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت اور جگہ کی قید و پابندی کے بغیر اپنی طرف سے تبلیغ کرنے کا حکم دیاہے ۔ فرمان گرامی ہے : ’’ میری طرف سے ایک آیت کا علم ہی پہنچا ہو، تو اسے آگے لوگوں تک پہنچاؤ۔‘‘ دوسری شکل: اگر قیام کرنے والا کفار کے حالات کاجائزہ لینے فسادِ عقیدہ ‘ عبادت میں خطاء اخلاقی تہی دامنی جس میں وہ مبتلا ہیں ‘اس کے متعلق تحقیق کرنے کی غرض سے وہاں پر مقیم ہو،تاکہ وہ لوگوں کو خبردار کرسکے اور لوگ ان کے دھوکے میں نہ آئیں اور جو لوگ ان سے متاثر ہیں ‘ ان کو حقیقت حال سے آگاہ کرسکے تو یہ اقامت بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔ اس لیے کہ اس قیام کا مقصد تو یہی ہے کہ کفر اور اہل کفر سے ایسے انداز میں خبردار کیا جائے کہ وہ اسلام اور ہدایت ِ اسلام کی ترغیب بن جائے کہ کفر کا بگاڑ ہی اسلام کا سدھار ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے: ’’ کسی چیز کی اہمیت اس کی ضد سے نمایاں ہوتی ہے ۔‘‘ لیکن ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ اس قیام کا مقصد پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہو اور اس کے سامنے کوئی ایسا خطرہ نہ ہو جو اس مقصد سے اسے دور رکھ سکے۔ اگر اس کا مقصد پورا نہ ہوتا ہو بایں طور کے اسے ان کے حالات سے پردہ اٹھانے اور آگاہ کرنے سے منع کردیا جائے تو اقامت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور اگر اس کی مراد پوری ہوسکتی ہو‘ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ کوئی بڑا خطرہ بھی ہو جیسے کافر اس کے مقابلہ پر اتر آئیں اسلام ‘رسول اسلام اور ائمہ اسلام کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے لگیں تو خاموشی اختیار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّہِمْ مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام:108) ’’اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، پس وہ زیادتی کرتے ہوئے کچھ جانے بغیر اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر امت کے لیے ان کا عمل مزین کر دیا ہے، پھر ان کے رب ہی کی طرف ان کا لوٹنا ہے تو وہ انھیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ کافر ملک میں اس آدمی کی اقامت بھی درست ہے جو مسلمانوں کی طرف سے جاسوس بن کر وہاں مقیم ہو تاکہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں سے انہیں آگاہ کرسکے۔اور مسلمان ان کے شر سے ہوشیار رہیں ۔ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو مشرکین کے درمیان بھیجا تھا تاکہ وہ آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کریں ۔ [جاری ہے ]