کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 137
[1] ……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] اَوْکَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا﴾ (الانعام:158) ’’ جس دن تیرے رب کی نشانی آئے گی تو کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانافائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔‘‘ آیت میں بعض نشانیوں سے مراد سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ ٭: (تتمہ): یہاں ہم شہر کفر کی طرف سفر کا حکم بیان کررہے ہیں : ہم کہتے ہیں : کافروں کے ملک کاسفر تین شرائط کے ساتھ جائز ہے: شرط اول: انسان کے پاس اتنا علم ہو کہ وہ شکوک و شبہات سے دفاع کرسکے۔ شرط دوم: دین دار ہو اور دین داری ایسی ہو جو اسے خواہشات نفس کو روک سکے۔ شرط سوم: وہاں کے سفر کی ضرورت ہو۔ اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو بلاد کفر کا سفر جائز نہیں ہوگا۔کیونکہ اس میں فتنہ ہے‘ اورفتنے کا خوف رہتا ہے ‘ اور ساتھ ہی دولت کی بھی بربادی ہے۔کیونکہ انسان ایسے سفروں میں بے دریغ دولت خرچ کرتا ہے۔لیکن اگر کسی کو علاج یا کسی ایسے علم کے حصول کی غرض سے کہ جس کا انتظام اس کے ملک میں نہیں ہے ‘ سفر کی ضرورت پیش آجائے اور اس کے پاس مطلوبہ علم و دینداری ہو تو یہ کچھ حرج والی بات نہیں ۔ کافر ملک کی طرف بغرض سیاحت سفر کوئی ضرورت نہیں ہے اس غرض سے کسی ایسے اسلامی ملک کی طرف سفر کیا جاسکتا ہے جس کے باشندے شعائر اسلام کے پابندہوں ۔ الحمد للہ ! اس وقت ہمارے ملک کے بعض علاقے تفریحی مقامات کی شکل اختیار کرچکے ہیں جہاں جاکر اپنی تعطیلات کے ایام گزارے جاسکتے ہیں ۔ کافروں کے ملک میں اقامت گزیں ہوجانا کسی مسلم کے دین ‘ اخلاق ‘ سیرت اور کردار کے لیے زبردست خطرہ ہے۔ ہم نے اوردوسرے بہت سارے لوگوں نے ان لوگوں کا انحراف دیکھا ہے جنہوں نے جاکر وہاں قیام کیا تھا۔ اور وہ جو کچھ ساتھ [دین و ایمان کی دولت ]لے کر گئے تھے ‘ اس کے بغیر ہی فاسق و فاجر بن کر واپس آئے۔بعض تو نعوذ باللہ اپنے دین سے پھر کر ‘ بلکہ تمام ادیان کے منکر بن کر واپس ہوئے ۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ دین کا ایک دم انکار کردیا اور اس کا مذاق اڑانے لگے۔ دین سے تعلق رکھنے والوں کامذاق اڑانے لگے چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ۔ اس لیے مناسب ہی نہیں بلکہ لازم ہو جاتا ہے کہ اس سے دامن کو بچایا جائے‘ اور سفر کے لیے ایسی شرطیں رکھی جائیں جو اس طرح کی ہلاکت خیزیوں میں واقع ہونے والوں کی خواہشات کو لگام دے سکیں ۔ کافر ملک میں قیام کے لئے [جاری ہے ]