کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 136
بہت بری باز گشت ہے مگر جو مرد، عورتیں اور بچے فی الواقع کمزور اوربے بس ہیں اور وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور راہ نہیں پاتے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف فرما دے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا بخشنے والاہے۔‘‘[1] نیز فرمایا:﴿یٰـعِبَادِیَ الَّذِ یْنَ ئَ امَنُوٓا اِنَّ أَرْضِی وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ﴾ ’’اے میرے بندوجو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘(العنکبوت:65 ) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ان مسلمانوں کے بارہ میں نازل ہوئی جو مکہ میں تھے اور انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی تھی تو اﷲتعالیٰ نے انہیں بھی ایمان والے کہہ کر پکارا ہے۔ ‘‘[2] اور ہجرت کی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لا تنقَطِعُ الھجرۃ حتّی تَنقَطِع التّوبۃ وَلَا تنقَطِع التوبۃ حتّی تطلع الشمس من مغربھا۔)) [رواہ أبو داؤد۲۴۷۹ وصححہ الألباني] ’’ہجرت بند نہیں ہوگی یہاں تک توبہ قبول ہونا بند ہوجائے۔اور توبہ کا قبول ہونا اس وقت تک بند نہیں ہوگا جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے ۔‘‘[3]
[1] اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ قدرت رکھتے ہوئے ہجرت نہیں کرتے ‘جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو ان کی سرزنش کرتے ہیں اورکہتے ہیں :کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہیں تھی کہ تم اس کی طرف ہجرت کرجاتے۔کمزور لوگ جو ہجرت سے معذور ہیں ‘ اور ان کی معذوری کے پیش نظر انہیں اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی نفس کو اس کی گنجائش سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا۔ [2] ظاہر ایسا ہوتا ہے کہ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کلام علامہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے بشرطیکہ انہوں نے تفسیر کے علاوہ کسی اور کتاب سے نقل کیا ہو۔ کیونکہ تفسیر بغوی میں مذکورہ قول ان الفاظ میں نہیں ۔ [3] یہ اس وقت ہوگا جب کہ قابل قبول اعمال صالحہ ختم ہوچکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ [جاری ہے ]