کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 135
ہجرت :شرک والے شہر کو چھوڑ کر اسلامی شہرمیں چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں [1]اور ہجرت اس امت پر فرض ہے کہ شرک والے علاقے کو چھوڑ کر توحید والے علاقوں میں چلیں جائیں [2]اور یہ فریضہ قیامت تک کے لیے ہے ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّ لَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا o فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا﴾ (النساء:97 تا 99)
’’جو لوگ آپ نے آپ پر ظلم کرتے رہے جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں :تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ’’ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے۔فرشتے انہیں جواب میں کہتے ہیں کہ:’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم وہاں ہجرت کر جاتے؟ایسے لوگوں کا ٹھکاناجہنم ہے جو
[1] ہجرت عربی زبان میں ’’ہجر ‘‘سے ماخوذ ہے۔جس کا معنی ہے :چھوڑنا۔
شرع میں ’’ہجرت ‘‘ اس کو کہتے ہیں جو شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ: ’’ شہر شرک سے شہر اسلام کی طرف منتقل ہونا۔‘‘ شہر شرک اس مقام کو کہتے ہیں : جہاں کفر کے شعائراور رسم و رواج ادا کیے جاتے ہوں ‘اور شعائر اسلام ادا نہ کیے جاتے ہوں ۔ عمومی طور پر جیسے اذان ‘ نماز باجماعت ‘ عیدین اور جمعہ ۔ہم نے ’’عمومی طور پر‘‘ کی شرط اس لیے لگائی ہے تاکہ مسلم اقلیتوں والے وہ ملک باہر ہوجائیں جن میں دینی شعائر محدود پیمانے پر ادا کیے جاتے ہوں ۔ان کے اندر مسلم اقلیات کی طرف سے اسلامی شعائر ادا کرنے سے وہ شہر اسلام نہیں بن جائیں گے۔ شہر اسلام وہ ملک ہے جہاں یہ شعائر عمومی طور پر ادا کیے جاتے ہوں ۔
[2] چنانچہ ’’ہجرت ‘‘ بلاد کفر میں رہنے والے ہر اس مؤمن پر فرض ہے جو اپنے دین کا اظہار نہ کرسکتا ہو ۔ کیونکہ اپنا اسلام ظاہر نہ کرسکنے کی صورت میں ’’ہجرت ‘‘ ہی کے ذریعہ اس کا اسلام مکمل ہوسکتا ہے۔اور جس چیز سے کوئی واجب مکمل ہوتا ہو وہ بھی واجب ہوجاتی ہے۔