کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 134
[1] ……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] اور تین دن تک ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما ایک ذہین و فطین ہوشیار اور چاک و چوبند لڑکا تھا ۔ وہ رات ان کے ساتھ گزارتا اور رات کے آخری پہر میں مکہ چلا جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کے متعلق کوئی خبر سن لیتا تو اسے ذہن نشین کرلیتااور تاریکی چھا جانے کے بعد ان دونوں تک خبر پہنچادیتا۔ قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طریقہ سے تلاش کرنا شروع کردیا۔ اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے وسائل بروئے کار لانے لگے کہ کسی بھی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی خبر پالیں ۔ انہوں نے اس شخص کے لیے سو اونٹ انعام مقرر کیے تھے جو ان دونوں کو یا کسی ایک کو لے آئے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ تھا اور اپنی عنایت سے ان کی حفاظت اور نگہبانی فرما رہا تھا۔یہاں تک کہ ایک دن قریش آکر غار کے منہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں ‘ اور پھر بھی ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اگر ان میں سے کسی ایک نے اپنے قدموں میں نگاہ ڈال دی تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ فکر نہ کرو ‘ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔ ان دو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔‘‘ یہاں تک کہ جب تلاش ٹھنڈی پڑگئی تو تین رات بعد غار سے نکل کر ساحل کا رخ کیا اور مدینہ طیبہ کی طرف چل پڑے۔جب مدینہ کے انصار ومہاجرین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے متعلق سنا تووہ روزانہ بوقت صبح حرہ نامی جگہ پر آکر انتظار کے لیے بیٹھ جاتے۔ جب سورج گرم ہوجاتاتو پھر گھروں کو واپس چلے جاتے ۔جب وہ دن آگیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے تو دن بلند ہونے اور سورج گرم ہوجانے کے بعد لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تھے۔مدینہ طیبہ کی ایک پہاڑی پر ایک یہودی اپنی کسی ضرورت تحت نظریں ادھرادھر دوڑا رہا تھا کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو آتے ہوئے دیکھ لیا ۔سراب انہیں واضح کرتا جا رہا تھا۔ وہ بے اختیاربا آواز بلند چلا اٹھا: اے عرب والو! یہ رہا تمہارا وہ نصیب جس کا تم انتظار کررہے تھے۔چنانچہ مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کو امڈ پڑے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے طورپراس بات کے اظہار کے لیے کہ وہ جہاد اورآپ کے دفاع کے لیے بھی مستعد ہیں اپنے ہتھیار بھی ساتھ لائے تھے۔حرہ کے کھلے حصہ میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔ آپ انہیں لے کر دائیں طرف کو چلے گئے اور قباء میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں پڑاؤ ڈالا ۔ ان کے ہاں چند راتیں قیام کرنے کے دروان وہاں پر مسجد قباء کی تعمیر کی۔پھر مدینہ کا سفر اختیار کیا ‘لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ دوسرے لوگ آپ سے راستے میں ملاقات کررہے تھے ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب ہم مدینہ آگئے تو لوگ راستے میں گھروں سے نکل آئے۔ بچے اور غلام کہتے تھے: اللہ اکبر ‘ رسول اللہ آ گئے۔ اللہ اکبر محمد آگئے۔