کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 133
[1] ……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] اکثر لوگوں اور بڑے بڑے افراد کی طرف سے دعوت کے انکار کا ہی واسطہ رہتا۔ آپ کو بہت زیادہ تکالیف دی گئیں ۔ آپ پر ایمان لانے والوں کو بھی اس قسم کے مصائب سے دو چار ہونا پڑا۔معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دہی کے ذریعہ اچانک قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔بڑے بڑے قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا جائے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے دیکھا تھا اور محسوس کرلیا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضرور ان سے جا ملیں گے اور آپ کو انصار کی طرف سے مدد و نصرت حاصل ہو جائے گی جنہوں نے آپ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے حالات سے بچائیں گے جن حالات سے اپنے اہل و عیال کو بچاتے ہیں ۔اور اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش پر غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ اللہ کے دشمن ابو جہل نے کہا کہ : ’’ عقل مندی یہ ہے کہ ہر قبیلہ سے ایک مضبوط جوان چن لیا جائے ‘اورا سے تیز تلوار سے لیس کردیں ۔پھروہ سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یکبارگی حملہ کرکے آپ کو قتل کردیں اور ہم سکھ کا سانس لیں ۔ اس طرح حملہ کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے گا۔اوربنو عبدمناف (گھرانہ نبوت) اپنی پوری قوم سے جنگ نہیں کرسکیں گے‘آخر کار وہ دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے جو ہم انہیں دیدیں گے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کومشرکین کے ارادہ سے خبردار کردیا۔اور ہجرت کی اجازت دے دی۔اس سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی اجازت چاہی تھی ‘مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ جلد بازی نہ کریں ، امید ہے کہ مجھ بھی اجازت مل جائے گی۔‘‘چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تھے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کریں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلافِ عادت دوپہر کے وقت منہ ڈھانکے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ کی قسم ! اس وقت کوئی خاص بات آپ کو لے کر آئی ہے ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: جو لوگ آپ کے پاس ہیں انہیں ہٹادیجیے۔ انہوں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کی اہلیہ ہی توہیں ۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اجازت ملنے اور انھیں اپنا رفیق ِ سفر ہونے کی خوش خبری دی ۔[ تو صدیق اس عظیم سعادت پر فرط مسرّت سے روپڑے ،عائشہ صدیقہ اور اسماء رضی اللہ عنہما زادِ راہ کی تیاری میں لگ گئیں ] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یارسول اللہ ! میری ان دو سواریوں میں سے ایک آپ لے لیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ قیمت سے ۔‘‘ پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نکل گئے ۔ [جاری ہے ]