کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 13
و کردار سے بھی متاثر تھا۔ شیخ عبدالرحمن نہایت اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔ علم و عبادت میں اونچے مقام ومرتبہ کے انسان تھے۔ چھوٹوں سے چھیڑ چھاڑ اور بڑوں سے دلگی کرتے تھے۔ میرے ملنے والوں میں سب سے عمدہ اخلاق انہی کے تھے۔
انہوں نے عزت مآب شیخ الاسلام علامہ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھاتھا جو کہ آپ کے دوسرے استاذ ہیں ۔ان سے صحیح بخاری اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعض رسائل اور کچھ فقہی کتابوں کی تعلیم حاصل کی ۔
شیخ فرماتے ہیں :میں حدیث میں ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کے درس حدیث سے کافی متاثر ہوا۔ ان کے اخلاق اور لوگوں کے لیے ان کی وسعت قلبی سے بھی میں متاثرتھا۔
1371ھ میں درس و تدریس کے لیے بیٹھ گئے۔ریاض میں جب تعلیمی ادارے کھل گئے تو 1372ھ میں ان سے منسلک ہوگئے۔
شیخ فرمایا کرتے تھے: ’’دوسرے سال میں نے معہد علمی میں قدم رکھا اور شیخ علی الصالح کے مشورہ اور شیخ عبدالرحمن سعدی رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت حاصل کرنے کے بعد ان سے منسلک ہوگیا۔ ان دونوں علمی اداروں میں خاص اور عام دو اقسام تھیں اور میں خاص قسم میں تھا۔‘‘
اس وقت ایسا ہوا کرتا تھا کہ جو میں چاہتا’’ یعنی لوگوں کی زبان میں : چھلانگ لگا دیتا تھا۔ یعنی گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران اپنے اگلے سال کی تیاری کرتا ، پھر تعلیمی سال کے شروع میں اس کا امتحان دے دیتا تھا ۔ اگر کامیاب ہوجاتا تو جس سال کا امتحان پاس کیا ہوتا اس سے اگلے سال کی کلاس میں داخل ہوجاتا۔
اس طرح بہت مختصر مدت میں میں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔ دو سال کے بعد فراغت پالی اور معہد العلمی عنیزہ میں مدرس تعینات ہوگیا۔ ساتھ ہی ساتھ کلیہ شرعیہ میں اور شیخ عبدالرحمن سعدی کے ہاں تعلیمی سلسلہ چلتا رہا۔
جب شیخ عبدالرحمن سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تو عنیزہ کی جامع کبیر کی امامت اور عنیزہ قومی لائبریری میں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ساتھ ہی معہد العلمی میں بھی درس دیتے