کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 129
’’اے کپڑا اوڑھنے والے۔[1]کھڑے ہوجاؤ اور آگاہ کردو۔[2]اپنے رب کی عظمت بیان کرو ۔ اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔نجاست سے دور رہو اوراس نیت سے نہ دو کہ زیادہ کے طالب ہو اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔‘‘
﴿قُمْ فَأَنذِ رْ ﴾ کا معنی ہے کہ شرک سے ڈراؤ(آگاہ کرو)اور توحید کی دعوت دو ۔ ‘‘
﴿وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ﴾ یعنی توحید کے ذریعے اس کی عظمت اور کبریائی بیان کرو۔
﴿وَثِیَابَکَ فَطَہَرْ﴾ یعنی اپنے اعمال کو شرک سے بچاؤ۔
﴿وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ﴾ الرجزکا معنی بت ہیں ‘اور ’’فاھجر‘‘ کا معنی ہے کہ اس بت کو اور اس کے پیروکاروں کو چھوڑدیں (یعنی قطع تعلقی کرلیں )اور اسی طرح ان (بتوں ) سے اور ان کے پیروں کاروں سے بیزاری کا اظہار کریں ۔
آپ نے اس توحید کی دعوت پر دس سال صرف کیے۔ [3]دس سال کے بعد آپ کومعراج آسمانی کرائی گئی۔ [4] پھر آپ پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں ۔
[1] یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جارہا ہے۔
[2] اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے کہ وہ خوب سرگرمی کے ساتھ کوشش کرکے لوگوں کی شرک کی قباحت سے خبردار کریں اور ڈرائیں ۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے ان آیات کی تفسیر کردی ہے۔
[3] یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس سال تک اللہ کی توحید اور اس کے یکتا ہونے کی دعوت دیتے رہے۔
[4] یعنی آپ کو معراج حاصل ہوئی۔معراج عروج سے ہے۔عروج : کے معنی ہیں چڑھنا۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِِلَیْہِ﴾ (المعارج:4)
’’فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔‘‘
معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عظیم خصوصیات میں سے ہے جن کا انعام اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت سے پہلے آپ پر کیا تھا۔
’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں لیٹے ہوئے تھے- تو ایک آنے والاآپ کے پاس آیا، اور جسم کو حلق سے لے کر پیٹ کے نیچے کے حصہ تک چاک کردیا،پھر دل نکال کر اس کو دھویاگیا، پھراسے ایمان اور حکمت سے بھر کر اُسے جوں کا توں لوٹا دیا گیا۔ پھرایک سفید جانور لایا گیا ، جو [حاشیہ جاری ہے]