کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 128
[1]اﷲتعالیٰ نے آپ کو شرک سے بچانے اور توحید کی دعوت دینے کے لیے مبعوث فرمایا۔ [2] اس کی دلیل اﷲتعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ یَـٰٓـأَ یُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنْذِرْo وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْo وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ o وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُo وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ﴾ (المدثر:1 تا7 )
[1] [بقیہ حاشیہ]: اقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق: 1 تا6 )’’اپنے رب کے نام سے پڑھیں جس نے پیدا کیا۔ اس نے انسان کو ایک جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھ اورآپ کا رب سب سے زیادہ کرم کرنے والاہے۔وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا۔ اس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ اور جب اللہ تعالیٰ نے سورت مدثر کی یہ آیات نازل فرمائیں تو اس وقت سے رسالت ملی: ﴿ یَـٰٓـأَ یُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنْذِرْo وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْo وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ o وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُo وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ﴾ (المدثر:1 تا 7 ) ’’اے کپڑا اوڑھنے والے ۔کھڑے ہوجاؤ اور آگاہ کردواپنے رب کی عظمت بیان کرو ۔ اپنے کپڑوں کو پاک رکھونجاست سے دور رہو اوراس لیے نہ دو کہ زیادہ کے طالب ہو اور اپنے رب کے لیے صبر کرو ۔‘‘ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کیا۔ اقوال ِعلمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم کے مطابق رسول اور نبی میں فرق یہ ہے:’’ نبی ‘‘وہ ہے جس کی طرف کوئی شریعت وحی کی گئی ہو لیکن اس کی تبلیغ کا حکم اسے نہ ملا ہو۔ اور ’’رسول‘‘ وہ ہے جس کی طرف شریعت بھی آئی ہو‘اور اسے اس کی تبلیغ اور اس کے مطابق عمل کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہو۔ چنانچہ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ دیگر کچھ اقوال بھی ہیں جنہیں مصادر میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ۵۔ پنجم: آپ کیا دے کر اور کیوں بھیجے گئے تھے؟ آپ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی وہ شریعت دے کر بھیجے گئے تھے ‘ جس میں احکام کی پابندی اور ممنوعات سے دوری دونوں کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ تمام عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے تاکہ انہیں شرک ‘ کفر اورجہالت کی تاریکی سے نکال کر علم ‘ایمان اور توحید کی روشنی میں پہنچادیں اور وہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی رضا حاصل کر سکیں ۔اور اس کی سزا نیز اس کے غضب سے محفوظ رہ سکیں ۔ [2] یعنی آپ لوگوں کو شرک سے ڈراتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ‘ الوہیت اور اس کے اسماء و صفات میں توحید کی دعوت دیتے تھے۔