کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 124
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] یعنی ایسی عبادت جو کہ شوق اور طلب میں ہوتی ہے۔ شوق اور طلب کی صورت میں انسان اپنے اندر ایسا جذبہ محسوس کرتا ہے جو اسے عبادت پر ابھارتا ہے۔ کیونکہ اس کو ایسی چیز کی طلب ہوتی ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس عالم میں کرتا ہے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کاہی قصد کرتاہے اور اس کی قربت کی تلاش میں رہتاہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا:’’اگر (یہ تصور قائم نہ کرسکو کہ ) تم اسے دیکھ رہے ہو تو (یہ تصور ہو کہ ) وہ تمہیں دیکھ رہاہے ‘‘یہ عبادت خوف و ڈرسے عبارت ہے۔ احسان میں اس کا دوسر امرتبہ ہے۔ اگر عبادت الٰہی میں اگر (یہ تصور قائم نہ کرسکو کہ ) تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اور اس کی طلب کررہے ہو اور طبیعت کو اس تک پہنچنے پر آمادہ کررہے ہو تواس طرح عبادت کرو (اوریہ تصور ہو گویا کہ) وہ تمہیں دیکھ رہاہے‘‘چنانچہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح سے کرسکو گے جیسے تم اس سے خوف زدہ ہو اور اس کی سزا اور عذاب سے بھاگ رہے ہو۔ تصوف و سلوک والوں کے نزدیک یہ درجہ پہلے درجہ سے کم ترہے۔
عبادت الٰہی کا مفہوم علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان فرمایاہے:
’’بے انتہا محبترحمان کے لیے فرط ذلت یہ دو عبادت کے ستون ہیں ۔‘‘
معلوم ہوا کہ ’’ عبادت کی بنیاد‘‘ دو چیزوں پر ہے :
۱۔ انتہائی درجہ کی محبت
۲۔ انتہائی درجہ کا احساس بے بسی و ذلت۔ محبت میں طلب پائی جاتی ہے اور احساس ذلت میں خوف و فرار ۔
یہ احسان اللہ تعالیٰ کے لیے کی جانے والی عبادت میں پایا جاتا ہے۔
انسان جب اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے کرے گا تو یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کا مخلص بندہ ہوگا۔ اپنی عبادت کے ذریعہ کسی ریاکاری ‘ شہرت یا لوگوں کی تعریف کا طلب گار نہیں ہوگا۔ لوگوں کواطلاع ہو یا نہ ہو سب اس کے نزدیک برابر ہوگا۔ اور وہ ہر حال میں عبادت میں احسان کرنے والا ہوگا۔ بلکہ اخلاص کی تکمیل تو یہ ہے انسان اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ لوگ اس کو حالت عبادت میں دیکھنے ہی نہ پائیں ۔ عبادت کا معاملہ اس کے اور رب کے مابین پوشیدہ رہے۔اظہارکی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ عبادت کا اظہار کرنے میں مسلمانوں کے لیے کوئی مصلحت و منفعت پوشیدہ ہو۔ مثلاً وہ آدمی ایسا ہے کہ جس کی اتباع و اقتدا کی جاتی ہے تو وہ لوگوں پر اپنی عبادت اس لیے ظاہر کرے کہ لوگ بھی اس سے روشنی حاصل کریں اور اس کے مطابق چلیں ۔یا وہ اپنی عبادت کا اظہار اس لیے چاہتا ہے کہ اس کے ساتھی ‘ دوست و احباب بھی عبادت کرنے لگیں تو اس میں خیر وبھلائی پوشیدہ ہے۔ ایسی مصلحت پر توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو اپنی دولت [حاشیہ جاری ہے]