کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 123
[1] …………………………………………………… …………………………………………………… ……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]جاہ و مرتبہ کااحسان: لوگوں کے مختلف مراتب و مقامات ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کی پہنچ سرکاری کارندوں تک ہوتی ہے۔انسان لوگوں کواپنے مقام و مرتبہ کی بھلائی سے فائدہ پہنچاکر ان پر احسان کرسکتا ہے ۔ لوگ اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کسی سرکاری عہدہ دار کے ہاں کسی پریشانی کو ختم کرانے یا کسی فائدہ کے حصول کے سلسلہ میں سفارش کے طالب ہوتے ہیں ۔ ’’علمی احسان ‘‘ یہ ہے کہ انسان اللہ کے بندوں میں علم پھیلائے ۔ عمومی و خصوصی محفلوں اور نشستوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری کیا جائے۔ یہاں تک کہ قہوہ اور چائے کی مجلس کوبھی یوں ہی بلا فائدہ نہ جانا جائے ۔ کیونکہ لوگوں کو تعلیم دینا اور دین سکھانا احسان ہے بھلے وہ عام مجلس میں ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس سلسلہ میں حکمت سے کام لینا چاہیے۔ انسان کو اہل مجلس پر بوجھ نہیں بن جانا چاہیے۔ جہاں اور جب بیٹھے تو وعظ شروع کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موقعہ بموقعہ وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس میں زیادتی سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے طبیعت تھک کر بیزار ہو جاتی ہے۔اور بیزار طبیعت بوجھل اور کمزور ہوجاتی ہے۔لمبے وعظ اور طویل نصیحت سے لوگ خیرخواہی کو ناپسند کرنے لگتے ہے۔ ’’جسمانی احسان‘‘ لوگوں کے ساتھ بدنی یا جسمانی احسان یہ ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تمہارا سواری کے سلسلہ میں کسی کی مددکرنا اسے سواری پر سوار کرادینایا اس کے لیے سواری پر اس کا سامان چڑھا دینا بھی صدقہ ہے ۔‘‘ (البخاری:2891۔ مسلم:1009) ایک آدمی جس کے ساتھ آپ احسان کرتے اور اس کی مدد کرتے ہیں ‘ اس کا سامان ساتھ لدوا دیتے ہیں ‘ یا اسے راستہ بتادیتے ہیں یا اس جیسے دیگر کام کرتے ہیں یہ سب کے سب کام صدقہ ہیں ۔ اور یہ ساری باتیں اس احسان میں شمار ہوتی ہیں جواللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ احسان کیا جاتا ہے۔‘‘ ’’تعبدی احسان‘‘جہاں تک عبادت الٰہی میں احسان کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق ہے : ((أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَإِنَّہُ یَرَاکَ۔)) ’’ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسے کرو گویا کہ تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو ‘ اگر (یہ تصور قائم نہ کرسکو کہ ) تم اسے دیکھ رہے ہو تو (یہ تصور ہو کہ ) وہ تمہیں دیکھ رہاہے ۔‘‘(متفق علیہ) [حاشیہ جاری ہے]