کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 119
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] دوسری مثال: ہم دیکھتے ہیں کہ مریض کو دوا پینے کا کہا جاتا ہےچنانچہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے پیتا ہے ‘اور ایسی غذاؤں سے پرہیز کرتا ہے جو نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ حالانکہ جی چاہتا ہے کہ وہ بھی ان سے لطف اندوز ہو۔یہ ساری پابندی اورپرہیز شفا اور سلامتی کی طلب میں برداشت کرتاہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دوا پینا چھوڑ دے اور ایسی غذائیں استعمال کرنے لگے جو اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہوں اورکہے کہ تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا۔ تو پھر ایسے کیوں ہوجاتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو چھوڑ کر یا ان کی منع کردہ چیزوں کا ارتکاب کرکے اس پر تقدیر کو دلیل بناتا ہے؟۔
ساتویں وجہ: واجبات ترک کرنے والے یا گناہ کے مرتکب پر اگر کوئی دوسراشخص زیادتی کرےیا اس کا مال چھین لے یا اس کی عزت و ناموس پر ڈاکہ ڈالے اور کہے کہ مجھے برا بھلا مت کہو کیونکہ میرا یہ ظلم و زیادتی تقدیر کے عین مطابق ہے تو کوئی بھی شخص اس کی دلیل کو ہر گز نہیں مانے گا۔
تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے کے لیے تو تقدیر سے استدلال کو نہ مانے لیکن خود اللہ تعالیٰ کے حقوق کی پامالی میں وہ تقدیر سے دلیل پیش کرے؟
روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک چور کا معاملہ پیش کیا گیا ‘جس پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
اس چور نے کہا: امیر المؤمنین ! ذرا ٹھہرئیے میں نے چوری تقدیر کے مطابق کی ہے۔
توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ ہم بھی تیرا ہاتھ تقدیر کے مطابق ہی کاٹ رہے ہیں ۔‘‘
تقدیر پر ایمان لانے کے فوائد :
اول :کسی کام کے متعلق اسباب مہیا کرتے وقت ظاہری اسباب کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا کیونکہ ہر ایک چیز اس ذات کی تقدیر[اور مشیت] کے مطابق ہی ہوتی ہے۔
دوم : مراد پوری ہونے کی صورت میں اپنی ذات پر گھمنڈ نہیں آتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہی مرادیں پوری ہوتی ہیں یہ اس کی ایک نعمت ہے۔بایں طور کہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی اور کامیابی کے اسباب و وسائل مقرر فرمائے ہیں اپنے آپ پر غرور اس نعمت کی شکرگزاری سے غافل کردیتاہے۔
سوم : تقدیر کے مطابق جو حالات اسے پیش آتے ہیں ‘ ان پر انسان کو اطمینان اور قلبی سکون رہتاہے ۔ کسی پسندیدہ چیز کے نہ ملنے یا نا پسندیدہ چیز کے پیش آنے پر وہ غم وقلق سے دوچار نہیں ہوتا[بالفاظ دیگرتقدیر پر ایمان سے انسان خوشی اور غمی میں افراط اور تفریط سے بچ جاتا ہے اور ہر حال [جاری ہے]