کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 118
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]صرف تقدیر پر انحصار اور بھروسہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چوتھی وجہ : اللہ تعالیٰ نے بندوں کو بعض چیزوں کاحکم دیا اور بعض سے روکاہے۔ اور اس کو اتنی ہی چیز کا مکلف ٹھہرایا ہے جس کی اس میں طاقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿فَاتَّقُوااللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن:16)’’پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں : ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ:286) ’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔‘‘ اگرانسان کو کسی فعل پر مجبور کردیا جاتا تووہ ایسی چیز کامکلف ہوتاجس سے چھٹکارا پالینا اس کی استطاعت میں نہ ہوتا اور ایسا ہونا باطل ہے۔ اسی وجہ سے جب نادانی یا بھول چوک سے یا مجبوری میں اس سے کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اس پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس میں معذور ہے۔ پانچویں وجہ : تقدیر ایک پوشیدہ راز ہے۔ اس کا علم اس کے واقع ہوجانے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اور بندہ جو کچھ کرتاہے اس کام کے لیے ارادہ پہلے سے کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا ارادہ اس فعل پر مبنی نہیں ہوتا کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے تقدیر جان لیا ہے۔ لہٰذا تقدیر سے اس کا دلیل لینا بے سود اور لایعنی ہے۔ کیونکہ انسان جس چیز کو جانتا ہی نہ ہو ‘ اس میں اس کے لیے دلیل کا ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ چٹھی وجہ: ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیاوی معاملات میں ایسی ہی چیزوں کی طرف لپکتا ہے جو اس کے موافق ہوں یہاں تک کہ وہ انہیں حاصل کرلیتا ہے۔ ان کے علاوہ اپنے لیے نا مناسب چیزوں کا انتخاب نہیں کرتا۔ اور پھر اس انتخاب یا توجہ کرنے سے تقدیر پر دلیل نہیں لیتا۔ تو پھر دینی معاملات میں فائدہ مند چیزیں چھوڑ کر نقصان دہ چیزوں کا انتخاب کرتا ہے اور پھر اس پر تقدیر سے دلیل لیتاہے۔ کیا دونوں کا معاملہ یکساں نہیں ہے؟ اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں : ایک انسان کے سامنے دو راستے ہیں ۔ ایک راستہ ایسے شہر کی طرف جاتا ہے جہاں ہنگامے ‘ قتل و غارت بے عزتی اور خوف اور بھوک و افلاس کی فضاء چھائی ہو۔ اور دوسرا راستہ ایسے شہر تک جاتا ہو جہاں نظام ‘ پائیدار امن ‘ اچھی زندگی اور جان و مال اور ناموس کا احترام ہو تو وہ کون سا راستہ اختیار کرے گا؟ ظاہر ہے کہ انسان وہی راستہ اپنائے گا جو اسے انتظام و سکون والے شہر تک پہنچا دے۔کسی صاحب عقل کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہنگامہ اور خوف والے شہر کا راستہ اپنائے اور تقدیر کو بطور دلیل کے پیش کرے۔ پھرکیونکر آخرت کے معاملہ وہ جنت کو چھوڑ کر جہنم کے راستہ پر چلتا ہے اور تقدیر کو دلیل کے طور پر پیش کرتاہے ؟ [جاری ہے]