کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 117
[1]……………………………………………………
[1] پہلی وجہ : اللہ تعالیٰارشاد فرماتے ہیں : ﴿سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَنَا قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ﴾ (انعام:148)
’’جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ عنقریب کہیں گے کہ اگراللہ تعالیٰ چاہتے تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادااور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے عذاب کامزہ چکھ کر رہے۔ فرما دیجیے: کیا تمہارے پاس کوئی علمی دلیل ہے؟ ( اگر ہے)تو اسے ہمارے سامنے نکال لاؤ۔ تم محض خیالات کے پیچھے چلتے اور اٹکل کے تیر چلاتے ہو۔‘‘
اگر اس طرح کے تقدیر کے دعویٰ میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل یا حجت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب کا مزہ نہ چکھاتے۔
دوسری وجہ : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ﴾ (النساء:165)
’’ہم نے انہیں رسول بنایا، خوش خبریاں سنانے والے اورڈرانے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعداللہ تعالیٰ پر رہ نہ جائے اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے۔‘‘
اگر ’’تقدیر ‘‘کے مخالفین کی اس میں کوئی دلیل ہوتی تو رسولوں کے بعثت کے بعد وہ ختم نہ ہوجاتی۔ کیونکہ ان کے بھیجنے کے بعد بھی مخالفت تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہی واقع ہوئی ہوگی؟
تیسری وجہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم میں سے ہر ایک کا مقام جنت یا دوزخ میں معلوم ہے۔
صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو پھر ہم عمل کیوں کریں کیا ہم بھروسہ نہ کریں ؟۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں بلکہ عمل کرو ہر آدمی کے لیے انہی کاموں کو آسان کیا جاتا ہے جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات مبارکہ تلاوت فرمائیں : ﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی o فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی﴾ (واللیل:5 تا 7 )
’’پس وہ جس نے دیا اور( نافرمانی سے) بچا۔ اور اس نے سب سے اچھی بات کو سچ مانا۔ تو یقینا ہم اسے آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘ [متفق علیہ]
مسلم کی ایک روایت میں ہے :’’ ہر شخص کے لیے وہ عمل آسان کردیا جاتا ہے جس عمل کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہو۔‘‘ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عمل کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اور
[جاری ہے]