کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 116
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ]اور اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے: ﴿وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا ﴾ (الفرقان:2) ’’اور اس نے ہرچیز کو پیدا کیا پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا۔‘‘ اور اپنے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا : ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (الصافات:2) ’’اوراللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی ۔‘‘ ہمارے بیان کردہ اسلوب کے مطابق تقدیر پر ایمان لانا اس بات کے منافی نہیں کہ بندے کو اپنے اختیاری افعال میں مشیت اور قدرت حاصل ہو۔ کیونکہ اس قدر مشیت و قدرت کے اثبات پر شریعت اور واقع الحال دونوں دلالت کرتے ہیں ۔ انسان کی مشیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے: ﴿فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ مَآبًا﴾ (النباء:39 ) ’’پس جو شخص چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانہ بنائے۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیعُوْا﴾(التغابن:16) ’’پس جہاں تک ہو سکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جا ؤ۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَ عَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ﴾ (البقرۃ:286) ’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جو کوئی اچھے کام کرے گا تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا اگربرے کام کرے گا تو اسے نقصان پہنچے گا ۔‘‘ حقیقت میں ہر انسان جانتا ہے کہ اسے مشیت و قدرت حاصل ہے جس کے مطابق وہ کوئی کام کرتا ہے اور کوئی کام چھوڑتا ہے ۔ اوربا ارادہ کام جیسے چلنا اور بغیر ارادہ کام : جیسے کپکپانا ان دونوں کے مابین فرق صاف واضح ہے۔ لیکن بندے کی مشیت و قدرت اللہ تعالیٰ کی مشیت و قدرت کے تابع ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ o وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ (التکویر:28،29 ) ’’پس جو کوئی تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے۔اور تم بغیر رب عالم کی چاہت کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘ کائنات ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ اور اس کی ملکیت میں کوئی بھی چیز اس کے علم و مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ہماری بیان کردہ تفصیل کے مطابق تقدیر پر ایمان لانا واجبات ترک کرنے اور گناہ کا ارتکاب کرنے کے لیے کسی انسان کے حق میں دلیل نہیں بن سکتا۔ لہٰذا مذکورہ اعمال سے تقدیر پر دلیل لینا چند وجوہات کی بنا پر باطل ہے: [جاری ہے]