کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 110
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] ہزاروں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگ نکلے تھے تواللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ کر دیا کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر بہت مہربان ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘ چوتھی مثال: اس شخص کا قصہ ہے جس کا گزر کسی تباہ و برباد گاؤں سے ہوا تھاتو اس نے یہ نا ممکن سمجھا تھا کہ اللہ تعالیٰ اسے پھرزندہ کریگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک کیلیے موت دے دی ، پھر اسے زندہ کیا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ:259) ’’یا اس شخص کی طرح جو ایک بستی پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گری ہوئی تھی، اس نے کہااللہ تعالیٰ اس کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ تواللہ تعالیٰ نے اسے سو (۱۰۰) سال تک موت دے دی، پھر اسے زندہ کیا، فرمایا تو کتنی دیر رہا ہے؟ اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں ۔ فرمایا بلکہ تو سو (۱۰۰) سال رہا ہے، سو اپنے کھانے اور اپنے پینے کی چیزیں دیکھ کہ بگڑی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھ ہم انھیں کیسے اٹھا کر جوڑتے ہیں ، پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں ۔ پھر جب اس کے لیے خوب واضح ہوگیا تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘ پانچویں مثال : خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انہیں دکھائے کہ وہ مردہ کو زندہ کیسے کرتا ہے؟تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ وہ چار پرندے ذبح کریں اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے چاروں طرف موجود پہاڑوں پر منتشر کر دیں ، پھر انہیں پکاریں ۔تو ٹکڑے ایک دوسرے سے مل جائیں گے اور ابراہیم علیہ السلام کی طرف دوڑے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْئً ا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ (البقرۃ:260 ) ’’اور جب ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ فرمایا اور کیا تجھے یقین نہیں آتا؟ کہا :کیوں نہیں لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے۔ فرمایا :[حاشیہ جاری ہے]