کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 106
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] سُرَادِقُہَا وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآئٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَ سَآئَ تْ مُرْتَفَقًا﴾ (الکہف:29 )’’بے شک ہم نے ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی قناتوں نے انھیں گھیر رکھا ہے اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انھیں پگھلے ہوئے تانبے جیسا پانی دیا جائے گا، جو چہروں کو بھون ڈالے گا، برا مشروب ہے اور بری آرام گاہ ہے۔‘‘
اور فرمایا : ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَعَنَ الْکٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَہُمْ سَعِیْرًا o خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا o یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَ اَطَعْنَا الرَّسُوْلَ﴾ (الأحزاب:64 تا66) ’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ کوئی مدد گار۔جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کیے جائیں گے، کہیں گے اے کاش کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا کہنا مانا ہوتا اور ہم نے رسول کا کہنامانا ہوتا۔‘‘
موت کے بعد جو کچھ ہو گا ان پر ایمان لانا ’’ ایمان بہ یوم آخرت‘‘ سے متعلق ہے، مثلاً :
(أ) ’’ فتنہ قبر پر ایمان لانا۔‘‘ یعنی دفن کے بعد میت سے اس کے رب، اس کے دین اور اس کے نبی کے بارے میں سوال ہو گا۔ جو ایمان لائے ہوئے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ حق بات پر ثابت قدم رکھے گا۔ چنانچہ وہ کہے گا : ’’میرا رب اللہ تعالیٰ، میرا دین اسلام اور میرے نبی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں ۔‘‘
اور جو ظالم ہو ں گے اُن کو وہ گمراہ کر دے گا، چنانچہ کافر کہے گا:’’ ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔‘‘
اور جو منافق اور شکوک و شبہات کا شکار ہو گا کہے گا : ’’میں نہیں جانتا، لوگوں کو جو کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا تھا ۔‘‘
(ب) ’’ قبر کی سختیوں اور اس کی آسانیوں پر ایمان لانا۔‘‘ ظالموں ، منافقوں اور کافروں پر قبر میں عذاب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحٰی اِلَیْہِ شَیْئٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ (الأنعام:93)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا یا اور کہا کہ میری طرف وحی کی گئی ہےاور اس کی طرف کچھ بھی وحی نہ کی گئی ہو، یا جو کہتا ہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کرسکتا ہوں جواللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے؟ کاش آپ ان ظالموں کو موت کی سختیوں میں [حاشیہ جاری ہے]