کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 105
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] مال و دولت کو حلال ٹھہرایا۔ اگر حساب و کتاب، جزاء و بدلہ نہ ہو تو یہ سارے امور بے فائدہ ہوں گے۔اور اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ وہ کوئی کام بے فائدہ کرے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ o فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْہِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ﴾ (الاعراف:6،7 )
’’ تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے ۔پھر اپنے علم سے ان کے حالات بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔‘‘
سوم: ’’جنت‘‘ اور ’’ جہنم ‘‘ پر ایمان لانا، اور یہ کہ دونوں مخلوق کے دائمی ٹھکانے ہیں ۔ ’’جنت‘‘نعمت گاہ ہے جسیاللہ تعالیٰ نے ان مؤمنوں اور متقیوں کے لیے تیار کیا ہے جو ان باتوں پر ایمان لائے جن پر ایمان لانا واجب تھا، اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر اخلاص اور صدق کے جذبہ کے ساتھ کاربند رہے۔ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں کہ : ’’ایسا نہ آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے :
﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ o جَزَآؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ﴾ (البینۃ:7،8 )’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وہی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں ۔ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ یہ اس شخص کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈر گیا۔‘‘
اور فرمایا: ﴿فَـلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ:17 )’’پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے، اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
اور ’’جہنم‘‘ عقوبت خانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں اور ظالموں کے لیے تیار کیا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ اس میں ایسی ایسی سزائیں اور عقوبتیں ہیں جو سوچی بھی نہیں جا سکتیں ،اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ﴾ (آل عمران:131 )’’اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا اَحَاطَ بِہِمْ [حاشیہ جاری ہے]