کتاب: فہم دین کے تین بنیادی اصول - صفحہ 104
[1]……………………………………………………
[1] [بقیہ حاشیہ] دوم: حساب اور جزاء پر ایمان لانا : بندہ سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائیگا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ہے:﴿اِِنَّ اِِلَیْنَا اِِیَابَہُمْ oثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ ﴾ (الغاشیۃ: 25،26 )
’’یقینا ہماری طرف ان کا لوٹ کر آنا ہے ۔پھر بے شک ہمارے ہی ذمہ ان کا حساب ہے ۔‘‘
اور فرمایا : ﴿مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَـلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَ ہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ (الانعام:160 ) ’’جو کوئی ایک نیکی لاتا ہے تو اس کے لیے اس کا دس گناہے اور جو کوئی ایک برائی لاتا ہے سو وہ اسی کے برابر سزا پائے گا اور اس پر ظلم نہ ہوگا ۔‘‘
اور فرمایا : ﴿وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَـلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّ اِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِہَا وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ ﴾ (الأنبیاء: 47)’’ اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو کھڑی کریں گے تو کسی شخص کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی (کسی کا عمل)ہوگا تو ہم اس کو لاحاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں ۔‘‘
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ مؤمن کو قریب کرے گا اور اس کے اوپر(اپنے رحم کا)بازو ڈال کر اسے ڈھانک لے گا، پھر فرمائے گا : کیا فلاں گناہ جانتے ہو؟ کیا فلاں گناہ جانتے ہو؟ وہ کہے گا : ہاں اے رب! حتی کہ جب اس سے گناہوں کا اعتراف کرا لے گا اور اس مؤمن کو یقین ہو جائے گا کہ وہ برباد ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تمہارے لیے میں نے اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھا تھا، آج تمہیں معاف کرتا ہوں ۔ چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دیدی جائے گی۔ کفار اور منافقین کا معاملہ یہ ہو گا کہ تمام مخلوق کی موجودگی میں ان کے متعلق اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے تعلق سے جھوٹا برتاؤ کیا تھا۔ ہوشیار ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
صحیح حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیفرمایا : ’’ جوکوئی نیکی کا ارادہ کرتا ہے، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے دس گنا سے لے کر سات سو گنا، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ نیکیاں لکھ دیتے ہیں ۔ اور جو کوئی برائی کا ارادہ کرتا ہے، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک برائی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘
اعمال کے حساب و کتاب اور ان پر بدلہ و جزاء کے سلسلے میں مسلمانوں کا اجماع ہے۔حکمت کا تقاضہ بھی ہے کہ حساب ہو اور بدلہ ملے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتابیں اتاریں اور رسول بھیجے۔جو شریعت رسول لائے اسے قبول کرنااور اس کے واجبات پر عمل کرنابندوں پر فرض قرار دیا۔ اس کے مقابلہ میں آنے والوں کیساتھ قتال کرنا واجب ٹھہرایا، ان کی جان، ان کی آل و اولاد ان کی عورتوں اور[حاشیہ جاری ہے]