کتاب: فضائل قرآن مجید - صفحہ 70
(قیامت کے روز) لکھنے والے معزز نیک فرشتوں کے ساتھ ہے اور جو شخص اٹک اٹک کرپڑھتا ہے اس کے لئے دہرا اجر ہے۔‘‘(مسلم) حدیث شریف کے الفاظ غور طلب ہیں ظاہر ہے تلاوت کا ماہر تو وہی بنے گا جس نے بچپن میں ہی قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر لی اور اٹک اٹک کر وہی پڑھے گا جو بچپن میں کسی وجہ سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل نہ کر سکا اور بڑی عمر میں پڑھنا شروع کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو دہرے اجر کی نوید سنا کر اُس کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے یعنی جہاں دوسرے لوگوں کو قرآن مجید کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیاں ملیں گی وہاں اٹک اٹک کر پڑھنے والے کو ایک ایک حرف پر بیس بیس نیکیاں ملیں گی۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’علم سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘(طبرانی)اس حدیث شریف میں علم سیکھنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم مختلف عمروں میں ایمان لاتے رہے اور جس عمر میں ایمان لاتے فوراً قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے لگ جاتے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک انسان پر نزع کا عالم طاری نہیں ہوتا۔‘‘(ترمذی، ابن ماجہ) اس حدیث شریف میں بھی اس بات کی ترغیب موجود ہے کہ مسلمانوں کو موت سے پہلے پہلے جب بھی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما دیں ، قرآن مجید کا علم حاصل کرنا چاہئے اور اس میں قطعاً کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ کہا جاتا ہے ’’اُطْلُبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَہْدِ اِلَی اللَّحْدِ‘‘ یعنی ’’ماں کی گود سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔‘‘
پس قرآن مجید کا علم حاصل کرنے میں کسی آدمی کو جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے خواہ انسان بالکل بڑھاپے کی عمر میں ہی کیوں نہ ہو ، کیا معلوم کہ خلوص دل سے نیت اور ارادہ کرنے پر ہی اللہ تعالیٰ گذشتہ زندگی کے سارے گناہ معاف فرما دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک آدمی کا واقعہ بیان فرمایا جس نے ننانوے قتل کئے اس نے توبہ کے لئے ایک درویش سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا ’’تمہاری توبہ قبول نہیں ہوگی۔‘‘ اس آدمی نے درویش کو بھی قتل کر دیا پھر ایک عالمسے پوچھا تو اس نے کہا ’’تمہاری توبہ قبول ہو سکتی ہے بشرطیکہ گناہ کی بستی سے ہجرت کر کے نیک لوگوں کی بستی میں چلے جاؤ۔‘‘ اس آدمی کو ہجرت کرتے ہوئے راستے میں ہی موت آگئی۔ مرتے وقت اس آدمی نے سینے کے بل گھسٹنا شروع کر دیا (تاکہ نیک لوگوں کی بستی کے جتنا بھی قریب ہوسکے ، ہوجائے اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فر مادے )