کتاب: فضائل قرآن مجید - صفحہ 62
چاہئے کہ دنیا میں شرک کی ابتداء تصویر سے ہوئی تھی۔[1] یادرہے بعض حضرات پردہ سکرین پر آنے والی تصویر کو محض عکس سمجھتے ہوئے جائز قرار دیتے ہیں جو کہ سراسر فریب اور دھوکہ ہے عکس تو کسی چیز کے ہٹتے ہی ختم ہوجاتاہے جبکہ کیمرے کی تصویر ہمیشہ کے لئے اسی طرح محفوظ ہوجاتی ہے جس طرح ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر محفوظ رہتی ہے لہٰذاشرعاً ہاتھ سے بنائی گئی تصویر اور کیمرے سے بنائی گئی تصویر دونوں کا حکم ایک جیساہے۔ 2 غیر محرم مردیا عورت کو دیکھنا: شرعاً غیر محرم (عورت یا غیر محرم مرد )کو دیکھنا حرام ہے غیر محرم مرد یا عورت پر نظر ڈالنے کو آنکھ کا زنا قرار دیاگیاہے۔ (بخاری ومسلم) ٹی وی دیکھنے والے مرد اور عورتیں جب تک ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں اس گناہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔[2] 3 موسیقی اور غنا : گانا بجانا اللہ تعالیٰ کے عذاب کا باعث ہے۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’جب گانے بجانے کے آلات اور گانے بجانے والی عورتیں ظاہر ہوں گی تو خسف(زمین میں دھنسنا)،قذف(پتھروں کا برسنا)اور مسخ (شکلیں تبدیل ہونا)کا عذاب نازل ہوگا۔‘‘(طبرانی) ٹی وی دیکھنے والوں کا زیادہ تر وقت اسی گناہ کے ارتکاب میں گذرتاہے۔
[1] بخاری ،کتاب التفسیر،باب تفسیر آیۃ لا تذرن ودا ولا سواعا ولا یغوث……. [2] اسلامی جمہوریت اور اسلامی سوشلزم کے بعد آج کل بعض حلقوں میں ’’اسلامی ٹی وی‘‘ کے قیام پربڑی سنجیدگی سے غور و فکر ہو رہا ہے۔ چلئے فرض کرلیجئے کہ اسلامی ٹی وی پر عورت نہیں آئے گی صرف مرد حضرات ہی آئیں گے، تب بھی سوال یہ ہے کہ کیا اس مرد کو غیر محرم عورتیں نہیں دیکھیں گی؟ یا اسلامی ٹی وی سے اس حدیث کا حکم ساقط ہوجائے گا جس میں رسول اللہeنے غیر محرم کے دیکھنے کو آنکھ کا زنا قرار دیا ہے؟ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ برائی اور بے حیائی پھیلانے کے جواب میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ دین اور نیکی پھیلانے کی دلیل تو واقعی بڑی دلکش اور خوشنما ہے لیکن اس کے حق میں کتاب و سنت کی کوئی دلیل بھی ہے؟حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جس ’’کارخیر‘‘ کی ابتداء ایک انتہائی بے ضرر سی برائی یعنی تصویر کے ساتھ ہوئی وہ بڑھتے بڑھتے بالآخر اکبر الکبائریعنی شرک تک جا پہنچی اور یہ مثال تو ہماری آنکھوں دیکھی ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں ٹی وی کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ پردہ سکرین پر عورت کی تصویر آتی نہ آواز سنائی دیتی ، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ مغرب زدہ فلمیں اور ڈرامے اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ دکھائے جارہے ہیں۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں ہمیں ایک بنیادی اصول بتا دیا ہے ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ﴾ یعنی ’’برائی کو بہترین نیکی کے ساتھ دفع کرو۔‘‘ (96:23) دوسری جگہ ارشاد پاک ہے ﴿وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ﴾یعنی ’’جو لوگ برائی کو نیکی سے دفع کرتے ہیں انہیں کے لئے ہے آخرت کا گھر(22:13) کیا کہیں ایسا حکم بھی ملتا ہے کہ برائی کو برائی سے دور کرو؟.