کتاب: فضائل قرآن مجید - صفحہ 45
عزت اور تکریم عطا فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے (قاری کی مغفرت اور تکریم کے بعد) قاری کے والدین کو دو ایسے قیمتی لباس پہنائے جائیں گے جس کے مقابلہ میں دنیا و مافیہا کی ساری دولت ہیچ ہوگی۔ والدین (تعجب سے) پوچھیں گے ’’یا اللہ! ہماری یہ عزت افزائی کس عمل کے بدلہ میں ہوئی ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے ’’اپنے بیٹے کو قرآن مجید پڑھانے کے بدلہ میں۔‘‘ (مسند احمد ، طبرانی)اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنَا مِنْہُمْ بِفَضْلِہٖ وَ مَنِّہٖ وَ کَرَمِہٖ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
انسانی زندگی کے ان تینوں ادوار کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کابغور مطالعہ کریں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ کیا ہم اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ِعزت اور آرام کی زندگی بسر کرسکتے ہیں یا برزخ میں اللہ کی رحمت کے بغیر عافیت اور آرام حاصل کرسکتے ہیں یا آخرت میں اللہ کی رحمت کے بغیر مغفرت اور جنت حاصل کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں اور واقعی نہیں تو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کوشش توکرنی ہی چاہئے۔ محض اپنے گھر میں ’’ O GOD Bless Our Home‘‘ لکھ دینے سے تو اللہ کی رحمت حاصل نہیں ہوتی۔ اللہ کی رحمت کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ ہم قرآن مجید کی طرف پلٹ آئیں، قرآن مجید کی تلاوت اور سماعت کو حرز جاں بنائیں، عملی زندگی میں اسے اپنا قائد اور راہنما بنائیں، بچوں کو قرآن مجید حفظ کرائیں ، ترجمہ اور تفسیر سکھائیں ، ان کے دلوں میں قرآن مجید کی محبت پیدا کریں۔ قرآن مجید سے ہم جتنا تعلق زیادہ رکھیں گے اتنے ہی زیادہ رحمت کے مستحق ٹھہریں گے جتنا تعلق کم کریں گے اتنی ہم کم رحمت حاصل کریں گے۔ اگر قرآن مجید کو مکمل طور پر ترک کردیں گے تو قطعی طور پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرلیں گے۔ اب یہ فیصلہ ہر آدمی کو خود کرنا چاہئے کہ وہ اللہ کی رحمت کا محتاج ہے یا نہیں؟ کم محتاج ہے یا زیادہ ﴿ فَمَنْ شَائَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلاً﴾ ’’جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے۔‘‘ (سورہ الدہر ، آیت 29)
قرآن مجید اور جدید سائنس:
آج انسانی زندگی میں سائنس کا عمل دخل اس قدر ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ میڈیکل سائنس کے علاوہ سائنس کے دیگر شعبوں سے بھی ہر شخص بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی طرح مستفید ہورہا ہے جس سے قدرتی