کتاب: فضائل قرآن مجید - صفحہ 191
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ احد کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارہ انصاریوں کے ساتھ الگ تھلگ رہ گئے۔ ان میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ مشرکوں نے ان کا گھیراؤ کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پلٹتے ہوئے فرمایا ’’ان لوگوں سے کون نمٹے گا؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’میں!‘‘ چنانچہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے تنہا گیارہ آدمیوں کے برابر قتال کیا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر (مشرک کی تلوار کی) ایسی ضرب لگی جس سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کی انگلیاں کٹ گئیں اور ان کے منہ سے ’’سی‘‘ کی آواز نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اگر تو بسم اللہ کہتا تو فرشتے تجھے اوپر اٹھالیتے حتی کہ لوگ بھی دیکھتے۔ ‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو (ناکام) پھیر دیا۔اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔ ٭٭٭ (1) فَضْلُ ﴿ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾(156:2) ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘کہنے کی فضیلت مسئلہ 221: مصیبت اور پریشانی کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون کہنے والے پر اللہ تعالیٰ اپنافضل اور رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ ﴿ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ ، الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ ، ﴾ (2: 155-157) ’’اور خوشخبری دے دیجئے صبر کرنے والوں کوجب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں ان کے رب کی طرف سے ان پر بڑا فضل اور بڑی رحمت ہوگی یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘(سورہ البقرہ،آیت نمبر155تا157) عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّہَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ ((مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیْبُہٗ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ مَا اَمَرَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَأَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْہَا اِلاَّ اَخْلَفَ اللّٰہُ لَہٗ خَیْرًا مِنْہَا )) رَوَاہُ مُسْلِمٌ[1]
[1] کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ ، رقم الحدیث 2126.