کتاب: فضائل قرآن مجید - صفحہ 18
’’پس جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔‘‘ (سورہ طٰہٰ، آیت نمبر123)
قرآن مجید سرتاسر ہدایت ہے:
قرآن مجید کے نزول کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کی ہدایت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ فَقَدْ جَائَ کُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَۃٌ ﴾ ترجمہ : ’’تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ایک روشن دلیل ، ہدایت اور رحمت آگئی ہے۔‘‘ (سورہ الانعام ، آیت نمبر157) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ اِنَّہٗ لَہُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ترجمہ: ’’اور بے شک یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لئے۔‘‘ (سورہ النمل ، آیت نمبر 77) یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ جو بھی ادنیٰ واعلیٰ شخص ہدایت کی نیت سے اسے پڑھتا ہے یا سنتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ ہدایت کے راستے کھول دیتے ہیں بشرطیکہ اس کے ذہن میں تعصب یا ہٹ دھرمی نہ ہو۔ تاریخ ِاسلام کے ابتدائی عہد کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
1: حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ یمن کے قبیلہ دوس کے سردار تھے۔ شاعر بھی تھے کسی کام سے مکہ گئے تو قریش مکہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کان بھرنے شروع کردیئے جس سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سخت بدگمان ہوگئے۔ ایک روز طفیل بن عمر و دوسی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحرم میں نماز پڑھتے دیکھا ، قرآن مجید کے چند جملے سنے تو محسوس کیا یہ تو بڑا اچھا کلام ہے۔ اپنی بدگمانی پر کچھ نادم سے ہوئے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر گھرچلے تو طفیل بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولئے ، گھر پہنچ کر عرض کیا ’’ میں فلاں فلاں قبیلے سے ہوں قریش کے سرداروں کے کہنے پر آپ کے بارے میں سخت بدگمان تھا حتی کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی حرم میں آپ کی زبان مبارک سے چند کلمات سنے ہیں جو مجھے اچھے لگے ہیں آپ مجھے تفصیل سے بتائیے آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘ جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ اخلاص اور سورہ فلق کی تلاوت فرمائی۔حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اسی وقت بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔