کتاب: فضائل قرآن مجید - صفحہ 16
اہل شام نے قرآن مجید سیکھنے کے لئے مجھ سے مدد طلب کی ہے۔ آپ حضرات میرے ساتھ تعاون کریں میں تم میں سے تین افراد کو شام بھیجنا چاہتا ہوں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بڑھاپے کی وجہ سے اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیماری کی وجہ سے سفر کرنے سے معذور تھے۔ لہٰذاباقی تینوں حضرات جانے کے لئے تیار ہوگئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں جاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ تعلیم کا آغاز حِمص (شہر کا نام)سے کرنا وہاں سے مطمئن ہو جاؤ تو تم میں سے ایک حمص میں ہی تعلیم کا کام جاری رکھے ایک دمشق چلا جائے اور وہاں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دے اور تیسرا فلسطین چلا جائے اور وہاں کے لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ دمشق روانہ ہوگئے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فلسطین چلے گئے۔ قرآن مجیدکے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے اس گہرے تعلق کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ وہ ان تمام فیوض و برکات سے مالا مال تھے جن کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اپنی انفرادی زندگی میں ایمان ، تقویٰ ، نیکی ،اللہ اور اس کے رسول سے محبت ، توکل ، قناعت ، امانت ، دیانت ، صداقت ، صبر اور شکر جیسے اوصاف حمیدہ سے وہ اس طرح متصف تھے کہ ان کے بعد دوبارہ ایسے انسان پیدا ہی نہ ہوں گے۔ قرآن مجید کی برکت سے ان کا معاشرہ عدل ،احسان ، ایثار ، ہمدردی ، قربانی ، باہمی اخوت و محبت ، امن و سلامتی ، خوشحالی اور دیگر خیر و برکات کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھا او رپھر سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں عزت ، عظمت ، عروج اور ایسا غلبہ عطا فرمایا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ قرآن مجید کی تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے دلوں سے کفار کی طاقت ، قوت اور اسلحہ کا خوف جاتا رہا۔ مسلمان بغیر کسی ٹیکنالوجی اور ایجاد کے پوری دنیا پر چھاگئے۔ عہد نبوت کو تو چھوڑیئے ، عہد صحابہ اور عہد تابعین میں جب مسلمان عرب ملکوں سے نکل کر دور اجنبی سرزمین اندلس پر پہنچے تو مورخین لکھتے ہیں:’’اندلس پر مسلمانوں کی اتنی ہیبت چھائی ہوئی تھی کہ اسلامی لشکر کو کوئی روکنے والا نہ تھا۔ طارق بن زیاد رحمہ اللہ جدھر رخ کرتا فتح و کامرانی اس کے ہمرکاب چلتی۔ اندلسی خود پیش قدمی کرکے صلح کرتے۔ طارق بن زیاد رحمہ اللہ آگے آگے علاقے فتح کرتے جاتے اور موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ اس کے پیچھے پیچھے صلح ناموں اور معاہدوں کی تصدیق کرتے جاتے۔‘‘[1] اندازہ فرمائیں 92ھ میں طارق بن زیاد رحمہ اللہ صرف سات ہزارسپاہیوں کے ساتھ جبرالٹرپر
[1] تاریخ اسلام از شاہ معین الدین ندوی ، حصہ دوم ، صفحہ نمبر178.