کتاب: فضائل صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم - صفحہ 92
ترجمہ:’’ہم نے اسی طرح تمہیں عادل(بہترین)امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہوجائیں۔‘‘ ’’أُمَّۃً وَّسَطًا‘‘کا معنی بیشتر مفسرین نے ’’عدولا خیارا‘‘کیا ہے،یعنی بہترین،سب سے افضل،ثقہ اور قابل اعتماد امت۔‘‘ [تفسیر جامع البیان:۲/۷،تفسیر القرطبی:۲/۱۵۳،تفسیر ابن کثیر:۱/۳۳۵] اِس آیت کے سب سے پہلے مخاطب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں،جنہیں تبلیغ دین کی ذمہ داری سونپی گئی،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ﴾ ترجمہ:’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے،تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘[آل عمران:۱۱۰] اور رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے جمِ غفیر کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: (أَلَا لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ)یعنی ’’خبردار ! تم میں جو یہاں پر موجود ہے وہ غیر حاضر تک(اس دین کو)پہنچائے۔‘‘ [البخاری کتاب العلم باب ألا لیبلّغ الشاہد منکم الغائب،حدیث:۱۰۵،