کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 92
شہادت پر روزہ رکھا گیا تھا لہٰذا ان ہر دو مواقع کے مابین فرق واضح ہوگیا۔اور دو والی احادیث کے تو صرف مفہوم سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کی شہادت سے روزہ نہیں رکھا جائیگا جبکہ ایک کی شہادت سے روزہ رکھنے والی احادیث کا منطوق(ظاہری الفاظ ومفہوم) بتاتا ہے کہ ایک کی شہادت اس موقع کے لیے کا فی ہے اور مفہوم سے منطوق کی دلالت راجح ہوتی ہے لہٰذا اثباتِ رمضان کے لیے ایک ہی شہادت کا فی ہے۔[1]
فیصلہ کن بات:
ان مختلف اقوال اور احادیث کے مابین جمع وتطبیق اس طرح دی جاسکتی ہے اور یہی فیصلہ کن بات بھی ہے کہ روزے کے لیے ایک اور عید کے لیے دو گواہوں والی بات ہی زیادہ قرین ِقیاس ہے کیونکہ روزہ ایک بوجھ یا مشقت محسوس ہوتا ہے اسکی شہادت وگواہی دینے میں کسی شبہے کا احتمال نہیں ہوتا جبکہ عید کے چاند سے ایک خوشی ہوتی ہے اور ایک شخص کی شہادت میں شبہے کا احتمال ممکن ہے لہٰذا اسکے لیے دو آدمیوں کی گواہی کا ہونا ہی مناسب ہے۔[2]
ایک نادر صورت:
اگر چاند نظر نہ آئے اور نہ ہی کوئی شہادت ہوتو تیس(۳۰)کی تعداد پوری کرلینی چاہیئے اور اگر کوئی ایسی شہادت ہو جو شرعاً معتبر نہ ہوتو ایسے موقع پر شہادت دینے والا خواہ واقع میں سچاہی کیوں نہ ہو اسے اکیلے اپنی رؤیت پر عمل نہیں کرنا چاہیئے بلکہ باقی لوگوں کے ساتھ رہے جس دن سب لوگ روزہ رکھیں وہ بھی رکھے اور جس دن سب لوگ عید کریں اسی دن وہ بھی عید کرے اور قربانی وعید الاضحی کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ابوداؤد وترمذی،ابن ماجہ وبیہقی اور دارقطنی میں حدیث ہے:
[1] بلوغ الامانی ۹ ؍۲۶۸
[2] فتاویٰ علماء حدیث ۶؍۱۹۳ مؤلِّف مولانا علی محمد سعیدی ،اطلاع ارباب الکمال مولانا عبدالعزیز نورستانی ص۷۳،مکتبہ ایوبیہ،کراچی