کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 84
اس شخص سے وہ آدمی مراد ہے جو مثلاً صوم ِ داؤدی(ایک دن خالی اور ایک دن کا روزہ) رکھتا ہے یا ہر ہفتہ میں سوموار(پیر) اور جمعرات کا ہمیشہ سے روزہ رکھتا آرہا ہے جو کہ مسنون ومستحب بھی ہیں (جیسا کہ ان کی تفصیل اس کتاب کے دوسرے حصہ’’احکام ومسائلِ روزہ ‘‘میں آئے گی)ایسے شخص کو حسبِ سابق روزہ رکھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔ اگر کوئی شعبان کے آخر دن کا روزہ محض اس شک کی بنیاد پر رکھتا ہے کہ شائد رمضان شروع ہوچکا ہو اور کسی وجہ سے چاند نظر نہ آیا ہو،ایسے شک کے دن کا روزہ رکھنے والے کو حدیثِ شریف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کانا فرمان قرار دیا گیا ہے چنانچہ سنن ِاربعہ ودارمی اور صحیح ابن حبان میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ((مَنْ صَامَ الْیَوْمَ الَّذِیْ یُشَکُّ فِیْہِ فَقَدْ عَصَیٰ اَبَا الْقَاسِمِ صلی اللّٰه علیہ وسلم )) [1] ’’جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا، اس نے ابوالقاسم (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کی نافرمانی کی۔‘‘ یہ حدیث جیسا کہ اسکے الفاظ ہی بتارہے ہیں،حضرت عمّار رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے البتہ علّامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارواء الغلیل میں کہا ہے کہ یہ موصولاً بھی مروی ہے اور اس موصول کی سند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ للزیلعی(۲/۴۴۲) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ رمضان سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت ترمذی ونسائی کی حسن درجہ کی سند والی ایک اور حدیث میں بھی آئی ہے جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا تَصُوْمُوْا قَبْلَ رَمَضَانَ،صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَافْطِرُوْالِرُؤْیَتِہٖ، فَاِنْ حَالَتْ دُوْنَہٗ غَیَابَۃٌ فَاَکْمِلُوْا ثَلَاثِیْنَ یَوْماً)) [2]
[1] ارواء الغلیل ۲؍۱۲۷ وصححہ موقوفاً علیٰ عمّارص وریاض الصالحین،ص ۴۸۱ [2] بحوالہ ریاض الصالحین،ص ۴۸۱