کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 82
’’کھانے،بات کرنے یا چلنے سے رک جانے والے کو بھی صائم کہا جاتا ہے۔‘‘ جیسے( رَجُلٌ صَائِمٌ )’’کھانے پینے سے رکا ہوا آدمی‘‘،(فَرَسٌ صَائِمٌ)چلنے سے رکا ہوا گھوڑا‘‘ اور بات کرنے سے رکے ہوئے کو بھی صائم کہا جاتا ہے جیسا کہ خود قرآنِ کریم کی سورۂ مریم ،آیت: ۲۶ میں حضرت مریم علیہا السلام کوحکم دیتے ہوئے فرمایا گیا: { فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَداً فَقُوْلِیْ: اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْماً، فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا} ’’اگر کوئی بشر تمہیں نظر آئے تو اس سے کہہ دینا کہ میں نے رحمن کیلئے روزے کی نذر مانی ہے اس لیے آج میں کسی سے نہیں بولوں گی۔‘‘ توگویا بولنے سے رک جانے کو بھی ’’صوم‘‘ یا روزہ قرار دیا گیا ہے۔ الصوم ( روزہ) کا شرعی واصطلاحی معنیٰ: حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی طرح امام نووی اور شوکانی نے بھی لفظِ صوم کا اصطلاحی معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: (وَفِی الشَّرْعِ اِمْسَاکٌ مَخْصُوْصٌ فِیْ زَمَنٍ مَخْصُوْصٍ بِشَرَائِطٍ مَخْصُوْصَۃٍ) [1] ’’اصطلاحِ شرع میں صوم کا معنیٰ ہے:مخصوص رک جانا(یعنی کھانے پینے وغیرہ سے) مخصوص وقت کیلئے اور مخصوص شرائط کے ساتھ۔‘‘ جبکہ تفسیر ابن کثیر(۱/۲۱۳) میں لکھا ہے: (ھُوَا لْاِمْسَاکُ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَالْوِقَاعِ بِنِیَّۃٍ خَالِصَۃٍ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ)
[1] الفتح والنیل