کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 64
جگہ’’بلا عذر رمضان کا ایک دن کا روزہ چھوڑنا‘‘ ہی لکھا ہے۔[1] ایسے ہی علّامہ ہیتمی رحمہ اللہ نے’’الزواجر عن اقتراف الکبائر‘‘جلد اول ،ص ۱۹۵[2]پر رمضان کا ایک بھی روزہ چھوڑنے کو کبیرہ گناہ شمار کیا ہے۔کیونکہ تارکِ روزہ کے بارے میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور ابوداؤد وترمذی،نسائی وابن ماجہ،دارمی وبیہقی اور صحیح ابن خذیمہ ومسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موصُولاً ومرفوعاً مروی ہے: ((مَنْ اَفْطَرَ یَوْماًمِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رُخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ یَقْضِ عَنْہُ صَوْمُ الدَّھْرِ کُلِّہٖ وَاِنْ صَامَہٗ))[3] ’’جس نے رمضان کے ایک بھی دن کا روزہ کسی مرض یا عذر کے بغیر ہی ترک کردیا۔وہ اگر ساری عمر بھی روزے رکھتا رہے،تب بھی اس کی کمی پوری نہیں کرسکے گا۔‘‘ اس حدیث کوتومحدِّثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔جبکہ ایسی ہی کئی دیگر روایات بھی ہیں لیکن اگر یہ سب نہ بھی ہوتیں تو قرآن وسنّت اور اجماعِ امت سے ثابت شدہ اس روزے کی فرضیّت اور اسکے پانچ ارکانِ اسلام میں سے ایک ہونے کی حیثیّت ہی کیا کم ہے کہ اسکے ترک کا ارتکاب گناہِ کبیرہ شمار ہو۔پورے دن کا روزہ ترک کرنا گناہِ کبیرہ کیوں نہ ہو،جبکہ ماہِ رمضان کے دنوں کے آخری اوقات میں سے جلد بازی کے نتیجہ میں اصل وقت سے تھوڑا سا پہلے روزہ کھولا جائے تو وہ بھی باعثِ عذاب ہے،جیسا کہ صحیح ابن حبان وابن خذیمہ، سنن(کبریٰ) نسائی اور مستدرک حاکم میں حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
[1] ص ۴۱۔۴۲ بتصیحح وتقدیم شیخ محمد عبدالرزاق حمزہ،مدرس حرمِ مکی [2] الزواجر علّامہ ہیتمی طبع دارالعرفہ،بیروت [3] الفتح الربانی ۹؍۲۳۷وبحوالہ مشکوٰۃ ۱؍۶۲۶ وضعفہ الالبانی فی تحقیق المشکوٰۃ ووضعہ فی ضعیف الجامع ۳؍۵؍۱۷۴