کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 47
اس حدیثِ شریف میں لیلۃ القدر کے اکیسویں رات ہونے کا تذکرہ ہے،جبکہ صحیح مسلم وابوداؤد،ترمذی ونسائی ،دارقطنی اور مسند حمیدی میں حضرت زربن حُبیش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا اور کہا کہ تمہارے بھائی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ جو شخص سال بھر کی ہر رات کو قیام کرے وہ لیلۃ القدر کو پالے گا۔تو حضرت ابیّ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ ان پررحم فرمائے،انہیں یہ تو معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں اور رمضان کے بھی آخری عشرہ میں بلکہ ستائیسویں رات ہے۔لیکن وہ چاہتے ہیں کہ لوگ(یہ جان لینے کے بعد) کہیں اسی پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیں (لہٰذا سال بھر کے قیام اللیل کا مشورہ دیتے ہیں ) اور پھر حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ نے بلا استثناء(یقینی انداز سے، ان شآء اللہ کہے بغیر) حلفیہ(قسم کھاکر)کہا کہ وہ رات رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔اس پر زر بن حُبیش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا:اے ابومنذر!یہ بات آپ اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ رہے ہیں ؟تو انہوں نے فرمایا:
((بِالْعَلَامَۃِ اَوْبِالْآیَۃِ الَّتِیْ اَخْبَرَنَا رَسُوْلُ اللّّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اَنَّھَا تَطْلَعُ الشَّمْسُ یَوْمَئِذٍ لَاشُعَاعَ لَھَا)) [1]
’’اس علامت یا نشانی کی بناء پر کہ جو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے کہ اس رات کے بعد صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اسکی شعاعیں (کرنیں )نہیں ہوتیں۔‘‘
یہ مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث ہیں جن میں سے بعض میں اکیسویں رات کو،بعض میں تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں رات کو اور بعض میں انتیسویں رات کو لیلۃ القدر قرار دیا گیا ہے لہٰذانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اَ حْوط(سب سے زیادہ مبنی براحتیاط)عمل یہ ہے کہ آخری عشرے کی سبھی راتوں میں قیام کیا جائے ورنہ کم از کم
[1] مشکوٰۃ ۱؍۶۴۵ ومع المرعاۃ ۴؍۳۰۵۔۳۰۶