کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 38
معروف محدّث ومجتہد اور مفسّرِ قرآن امام شوکانی رحمہ اللہ اپنی تفسیر فتح القدیر میں لکھتے ہیں :
(اَللَّیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃُ،لَیْلَۃُ الْقَدْرِ،کَمَافِیْ قَوْلِہٖ تَعَالیٰ{اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ} وَلَھَا اَرْبَعَۃُ اَسْمَائٍ اَللَّیْلَۃُ الْمُبَارَکَۃُ وَلَیْلَۃُ الْبَرَائَ ۃِ وَلَیْلَۃُ الصَّکِ)
’’لیلۂ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے جیسا کہ ارشادِ الٰہی{اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ}میں مذکور ہے۔اور اس کے چارنام ہیں یعنی لیلۂ مبارکہ،لیلۃ البراء ۃ،لیلۃ الصک(یعنی اقرارنامہ کی رات اور لیلۃ القدر۔)‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں :
عکرمہ ؒنے اس سے شعبان کی رات مراد لی ہے مگر حق یہ ہے کہ صحیح بات وہی ہے جو جمہور کا مسلک ہے کہ اس سے لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔کیونکہ یہاں تو اللہ تعالیٰ نے مجمل ذکر فرمایا ہے مگر سورۂ بقرہ کی آیت {شَھْرُرَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ}میں واضح کردیا ہے۔اسی طرح سورۂ قدر{اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ}میں بھی وضاحت موجود ہے۔اور اس واضح بیان کے بعد کوئی وجہ ہی باقی نہیں رہ جاتی کہ اختلاف کیا جائے۔اور نہ ہی کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے۔[1]
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس رات سے رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہی مراد ہے۔
امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر المعروف تفسیر کبیر میں لیلۂ مبارکہ سے لیلۃ القدر مراد ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے:
[1] فتح القدیر شوکانی ۴؍۵۷۰ دارالفکر بیروت،تفسیر سورۃ البقرہ آیت ۱۸۵ وسورۃ القدر