کتاب: فضائل رمضان و روزہ انوار و تجلیات برکات و ثمرات - صفحہ 37
جاتا ہے جیسا کہ یہاں ہے،اور ایسے ہی دیگر مقامات اور دیگر مسائل میں بھی ہوتا ہے۔لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ امام خازن کے نزدیک حضرت قتادہ اور ابن زید رحمۃ اللہ علیہما کی تفسیر ہی زیادہ معتبر اور صحیح تر ہے۔اور ان کے نزدیک یہاں لیلۂ مبارکہ سے رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہی مُراد ہے نہ کہ نصف شعبان والی رات اور یہ دوسرا قول ضعیف اور مرجوح ہے۔ تفسیر جامع البیان میں جمہور اہلِ علم کا مسلک یہی ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے۔البتہ مرجوح قول ذکر کرنے کے لیے یہ بھی لکھا ہے: (وَعَنْ بَعْضٍ: ھِیَ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ) [1] ’’بعض کے نزدیک اس سے نصفِ شعبان کی رات مراد ہے۔‘‘ دوسری مختصر تفسیر جلالین میں تفسیر المدارک کے حوالے سے لکھا ہے: ( ھِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ اَوْلَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ) [2] ’’اس سے مراد رمضان المبارک والی لیلۃ القدر ہے یا پھر نصف شعبان والی رات۔‘‘ اس سے آگے اس لیلۂ مبارکہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس مبارک رات میں قرآنِ کریم ساتویں آسمان(لوحِ محفوظ) سے آسمانِ دنیا پر نازل ہوا،اور پھر شعبان ورمضان کی دونوں راتوں کے بارے میں لکھا ہے: (وَالْجَمْہُوْرُ عَلٰی الْاَوَّلِ) ’جمہور اہلِ علم کے نزدیک اس مبارک رات سے پہلی یعنی رمضان المبارک والی رات لیلۃ القدر مراد ہے۔‘‘
[1] جامع البیان،ص۴۲۰ [2] تفسیر جلالین،ص۶۵۶ طبع دارالمعرفہ،بیروت